جسٹس ہیلپ لائن بڑا زبردست تصور ہے،عدلیہ بار ایسوسی ایشن اور آرمی کے ساتھ سول بیوروکریسی اہم انسٹیٹیوشن ہے، فروغ نسیم

رول آف لا کا مطلب ہے کہ انصاف سب کیلئے برابر ہونا چاہے کوئی کسی بھی عہدے پر ہو، اگر ایسا نہیں کرتے تو ایسی اقوام پستی میں چلی جاتی ہیں، وفاقی وزیرقانون

ہفتہ 16 اکتوبر 2021 21:50

جسٹس ہیلپ لائن بڑا زبردست تصور ہے،عدلیہ بار ایسوسی ایشن اور آرمی کے ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 اکتوبر2021ء) وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا ہے کہ جسٹس ہیلپ لائن بڑا زبردست تصور ہے،عدلیہ بار ایسوسی ایشن اور آرمی کے ساتھ سول بیوروکریسی اہم انسٹیٹیوشن ہے، رول آف لا کا مطلب ہے کہ انصاف سب کیلئے برابر ہونا چاہے کوئی کسی بھی عہدے پر ہو، اگر ایسا نہیں کرتے تو ایسی اقوام پستی میں چلی جاتی ہیں، عوام فیصلہ کریگی کہ وکلا نے انہیں کیا دیا،جب قانون بناتے ہیں تو وکیل بھائی ہی مزاحمت کرتے ہیں۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فروغ نسیم نے کہا کہ جب زیرالتوا کیسز کو کم کرنے کیلئے قانون بنایا تو وکلا نے ہی مزاحمت کی۔ وکلا کو سوچنا ہے کہ عوام کا مفاد ضروری ہے یا آپ کے کیس اور فیس۔ جو حق ہے میں اس کا ساتھ دوں گا۔ کرمنل ریفارمز میں ہے کہ اگر مقررہ وقت یا مہینے میں کیس ختم نہیں ہوا تو جج صاحب صفائی دیں گے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بعض ہمارے ججز کا قتل اس بات پر ہوا کہ ریکارڈ تبدیل کرتے تھے۔

اب کسی کیس میں عورت کے کریکٹر پر سوال نہیں ہوگا۔ جے آئی ٹیز میں پولیس کے ساتھ ڈی ایم جی افسران بھی ہونگے۔ تصور یہ ہے کہ عورت اور بچوں کے کرمنل کیسز میں لیگل ایڈ دی جائیگی۔ فروغ نسیم نے کہا عورت کی پراپرٹی کیسز کے پیچھے کسی مرد کا ہاتھ ہوتا ہے۔ وومن محتسب تین مہینے کے اندر پولیس کے ساتھ اس پر ایکشن لے گی۔ 3 سالوں میں، میں نے ڈیڑھ لاکھ کیسز مکمل کیئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب الیکٹرانک گواہی ریکارڈ ہوگی۔ ہمارے جوڈیشل سسٹم میں آج بھی انگریزی میں ہے۔ انگریزی زبان کے بغیر ترقی نہیں ہوسکتی۔ اب ہم کوشش کررہے ہیں کہ کیس کے دوران پولیس افسران بے اے پاس ہونگے۔ پراسیکیوٹر فیصلہ کریں گے ثبوت کافی ہیں یا نہیں۔ فرانزک لیب کا تصور ہوگا۔ کرمنل لا میں فرانزک اور الیکٹرانک مدد ضروری ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ نہیں ہورہا جو اب ریفارمز میں ہوگا۔

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کہا کہ پولیس 161 کے بیان مار دھاڑ کرکے لے لیتی ہے۔ کوشش ہے اسے ریکارڈ کیا جائے۔ موجودہ حکومت کے دور میں سب سے زیادہ آرڈیننس لانے کی بات غلط ہے ۔سابقہ حکومتوں کے دور میں شائد زیادہ آرڈیننس لائے گئے ہوں گے۔ آرڈیننس کی ایک مدت ہوتی اسمبلی سے پاس نہ ہو تو ختم ہوجاتا ہے۔ آرٹیکل 140 پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے۔

آرٹیکل 140 A 18 ویں ترمیم کے وقت کیوں ختم نہیں کیا گیا۔ 140 A کو ڈکٹیٹر کا قانون کہا جاتا ہے۔ جب تک 140 A پر عمل نہیں کیا جائے گا تو بلدیاتی نظام مضبوط نہیں ہوگا۔ آرٹیکل 140 A اگر ڈکٹیٹر کا قانون تھا تو پھر ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اسے کیوں ختم نہیں کیا۔ فروغ نسیم نے کہا کہ چیئرمین نیب کے معاملے پر مجھے یا حکومت کو تنقید کا سامنے نہیں۔ قوانین بنائے جارہے ہیں بن جائینگے تو سب سامنے آجائیگا۔ ڈی جی آئی ایس آئی سے متعلق سوال کیا گیا کہ ویر اعظم نے جو اسٹینڈ لیا ہے کیا وہ درست ہی جس پر فروغ نسیم نے کہا کہ اس معاملے پر صرف نو کمنٹس کا جواب دیا۔