افغانستان میں امن و استحکام کی بحالی ہمارے متفقہ بنیادی ڈھانچے اور انضمام کے منصوبوں پر جلد عمل درآمد کے قابل بنائے گی، صدر مملکت

ہم سب کو اسلامو فوبیا کی بڑھتی ہوئی لہر کے خاتمے کے لیے کام کرنا چاہیے ، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا 15 ویں ای سی او سربراہ اجلاس سے خطاب

اتوار 28 نومبر 2021 19:20

اشک آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 نومبر2021ء) صدرمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ افغانستان میں امن اور استحکام کی بحالی ہمارے متفقہ بنیادی ڈھانچے اور انضمام کے منصوبوں پر جلد عمل درآمد کے قابل بنائے گی،افغان عوام کی تکالیف کو کم کرنے کے لیے منجمد اثاثے جاری کیے جائیں، ہم سب کو اسلامو فوبیا کی بڑھتی ہوئی لہر کے خاتمے کے لیے کام کرنا چاہیے ،پاکستان جموں و کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کیلئے برادرانہ ای سی او اور اسلامی ممالک پر انحصار کرتا رہتا ہے، وہ بھارت کے غیر قانونی قبضے کے تحت مصائب کا شکار ہیں اور ناقابل بیان جبر کا سامنا کر رہے ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کو 15 ویں ای سی او سربراہ اجلاس سے خطاب میں کیا۔

(جاری ہے)

صدر مملکت عارف علوی نے کہا کہ میں اپنے دوست صدر بردی محمدوف کو 15ویں ای سی او سربراہی اجلاس کی صدارت سنبھالنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ،مجھے یقین ہے کہ ان کی دانشمندانہ رہنمائی میں ہم اس ای سی او سربراہی اجلاس کے مقاصد کوحاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ میں اپنے بھائی صدر رجب طیب ایردوان اور سیکرٹری جنرل نوزیری کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے کورونا کی وبا کے مشکل وقت میں 14ویں سربراہی اجلاس کی تمام تقریبات کو کامیابی کے ساتھ منعقد کیا۔انہوں نے کہاکہ پوری تاریخ میں تجارتی اور اقتصادی تبادلوں نے پیداوار، ترقی اور خوشحالی کو آگے بڑھایا ہے۔معاشی انضمام کا یہ تاریخی عمل ڈیجیٹل دور کی وجہ سیتیز تر ہوتا رہے گااور مقابلے میں رہنے کے لیے قومی اور علاقائی معیشتوں کو زیادہ جسمانی اور ورچوئل انضمام کی طرف بڑھنا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کا انضمام ای سی او خطے کے لیے ضروری ہے۔ اس سربراہ اجلاس کے لیے مستقبل میں جس موضوع کا انتخاب کیا ہے یہ انتہائی موزوں اور بروقت ہے۔ای سی اوخطے میں معاشی انضمام اور اقتصادی ترقی کے لیے بھرپور وسائل، کاروباری لوگ، جغرافیائی مناسبت، اور مشترکہ ثقافت اور ورثہ سمیت تمام درکار عناصر موجود ہیں پھر بھی تاریخی وجوہات کی بنا پر ای سی او تجارت، سرمایہ کاری، مالیات، بنیادی ڈھانچے، علاقائی قدروں کی زنجیر، محنت کشوں کی نقل و حرکت اور سماجی انضمام کے لحاظ سے سب سے کم مربوط خطوں میں سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ ای سی او ممبران کے درمیان علاقائی تجارت ان کی کل تجارت کا صرف 8 فیصد ہے علاقائی انضمام کے امکانات کو کھولنا ای سی او کے تمام رکن ممالک میں ترقی اور ترقی کو اہم محرک فراہم کرے گا۔انہوں نے کہا کہ ای سی او ویڑن 2025 میں جن مقاصد پر اتفاق کیا گیا ہے،ان پر اور13 ویں سربراہ اجلاس اسلام آباد اعلامیے پر عمل درآمد یقینی بنانا چاہیے۔

اس میں ایک آزاد یا ترجیحی تجارت کا انتظام ای سی او ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ بینک (ای ٹی ڈی بی) جیسے علاقائی اداروں کی مضبوطی اور ای سی او ری انشورنس کمپنی (ای آر سی) کو فعال کرنا شامل ہے۔تاہم اقتصادی انضمام کی کلید ورچوئل اور فزیکل رابطہ ہے، ہمیں ٹرانسپورٹ کوریڈورز کو مضبوطی سے آگے بڑھانا چاہیے جو ای سی او نے ٹرانزٹ ٹرانسپورٹ فریم ورک ایگریمنٹ کے تحت بنائے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ اسلام آباد-تہران-استنبول (آئی ٹی آئی) روڈ کوریڈور کے آپریشنل ہونے کا خیرمقدم کرتا ہیں۔انہوں نے کہا کہ ای سی او ممالک میں رابطے کی کنجی افغانستان میں امن ہے جس کا یہاں سب نے ذکر کیا ہے،آج 40 سال بعد افغانستان میں جنگ ختم ہو گئی ہیلیکن ایک انسانی بحران اور معاشی تباہی کا خوف اس کے لوگوں پر منڈلا رہا ہے۔ تیزی سے گہرا ہوتا ہوا بحران مالیاتی اور بینکنگ کے خاتمے کا خطرہ ہے، جس کے سنگین سماجی اور سیکورٹی مضمرات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم سب کو ایسی تباہی کو روکنے کے لیے اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، جس سے افراتفری،تصادم اور افغانستان میں دہشت گردی کا خطرہ ٹل سکے۔اس صورتحال میں افغانستان سے مہاجرین کا انخلاء بھی ہو سکتا ہے،چار دہائیوں سے پاکستان نے تقریباً 40 لاکھ افغان مہاجرین کی میزبانی کی ہے۔ فوری انسانی امداد کے علاوہ، ہمیں صحت اور تعلیم کے اہم شعبوں میں افغان عوام کی مدد کرنی چاہیے۔

افغان عوام کی تکالیف کو کم کرنے کے لیے منجمد اثاثے جاری کیے جائیں۔ ہمیں افغانستان کے اقتصادی استحکام اور پائیداری کے ساتھ ساتھ ای سی او اور بین الاقوامی برادری میں جلد انضمام کو فروغ دینا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ ہم سب نے اپنے خطے میں یکطرفہ زبردستی پابندیوں کے منفی اثرات کا مشاہدہ کیا ہے،اثاثے منجمد کرنے اور بینکنگ کی پابندیاں انسانی مصائب میں مزید اضافہ کرتی ہیں اور علاقائی امن، سلامتی اور خوشحالی پر سنگین اثرات مرتب کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امن اور استحکام کی بحالی ہمارے متفقہ بنیادی ڈھانچے اور انضمام کے منصوبوں پر جلد عمل درآمد کے قابل بنائے گی،تاپی گیس پائپ لائن،کاسا 1000 بجلی کا گرڈ،تاجکستان اور کرغزستان سے افغانستان اور پاکستان تک اور ازبکستان-افغانستان-پاکستان ریلوے لائن کی تعمیراہم ہے۔انہوں نے کہاکہ بدامنی سے پناہ گزینوں کے بڑے پیمانے پر اخراج کا حقیقی خطرہ ہے۔

صدرمملکت نے کہا کہ تمام ای سی او معیشتوں کو کووڈ19 وبائی مرض کی وجہ سے شدید نقصان پہنچا ہے، ترقی پذیر ممالک بشمول ای سی او کے کچھ ممبران کو ڈبل ڈیجٹ کے اقتصادی تنزلی کے ساتھ غیر متناسب نقصان اٹھانا پڑا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اللہ کے فضل سے نسبتاً خوش قسمت رہا ہے ہماری 'سمارٹ لاک ڈاؤن' کی حکمت عملی، ہمدردی کی حکمت عملی، فراخدلی سے سماجی تحفظ، اور اسٹریٹجک اقتصادی محرک نے زندگیوں اور معاش کو بچایا ہے اور ہماری معیشت کو پہنچنے والے نقصان کو محدود کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپلائی چین کی کووڈ سے متعلقہ خرابی نے بین الاقوامی تجارت میں خلل ڈالا ہے اور کچھ ممالک میں اشیاء کی قیمتوں اور افراط زر میں عالمی سطح پر 40 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ہمارے صارفین کو زیادہ قیمتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت ہماری آبادی کے کمزور طبقوں پر مہنگائی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے ٹارگٹڈ سپورٹ کا ایک بڑا پیکج فراہم کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جزوی طور پر قیمتوں میں عالمی افراط زر 27 ٹریلین ڈالر کے مالیاتی محرک سے پیدا ہوا ہے جو امیر ممالک کی طرف سے اپنی معیشتوں کو بحال کرنے کے لیے لگائے گئے تھے۔ بدقسمتی سے ترقی پذیر ممالک 4.3 ٹریلین ڈالر کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی محفوظ نہیں کر سکے ہیں جو انہیں کووڈ بحران سے نکلنے کے لیے درکار ہے۔انہوں نے کہا کہ ای سی او کو دوسرے ترقی پذیر ممالک کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ ترقیاتی ایجنڈا کو فروغ دینا چاہیے تاکہ پائیدار ترقی کی راہ پر واپس جا سکے۔

گروپ آف 77 اور تنظیم کے اگلے سربراہ کے طور پر پاکستان اس طرح کے ترقیاتی ایجنڈا تجویز کرے گا، جس میں قرضوں کی تنظیم نو، ترقی پذیر ممالک میں 650 بلین نئے ایس ڈی آرکی دوبارہ تقسیم، بڑی رعایتی فنانسنگ، سالانہ کلائمیٹ فنانس میں 100 بلین ڈالر کو متحرک کرنا، ترقی یافتہ ممالک، ترقی پذیر ممالک سے اربوں کے غیر قانونی مالیاتی بہاؤ کا خاتمہ اور ان کے چوری شدہ اثاثوں کی واپسی، اور ایک منصفانہ اور کھلے تجارتی نظام اور ایک منصفانہ بین الاقوامی ٹیکس نظام کی تشکیل شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ای سی او کے رکن ممالک تمام اسلامی ممالک اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ہیں،ہم اگلے سال 23 مارچ کو اسلام آباد میں ہونے والی او آئی سی کے وزرائے خارجہ کانفرنس میں آپ کی شرکت کے منتظر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ای سی اوکو ہمارے اہم مقاصد کو حاصل کرنے میں بھی اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ ہم سب کو اسلامو فوبیا کی بڑھتی ہوئی لہر کے خاتمے کے لیے کام کرنا چاہیے جو یورپ، شمالی امریکہ اور جنوبی ایشیا میں بڑھ رہی ہے اور مسلم مخالف نفرت پھیل رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں اس موقع کو ایک بار پھر صدر علیوف کو آذربائیجان کے علاقوں کو غیر ملکی قبضے سے بازیاب کرانے پر مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں۔پاکستان جموں و کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کے لیے برادرانہ ای سی او اور اسلامی ممالک پر انحصار کرتا رہتا ہے، وہ بھارت کے غیر قانونی قبضے کے تحت مصائب کا شکار ہیں اور ناقابل بیان جبر کا سامنا کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں اس سال ترکمانستان کی ای سی او کی چیئرمین شپ میں تمام تر کامیابیوں کے لئے دعاگو ہوں کرتاہوں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اگلی ای سی او چیئر کے طور پر ازبکستان کا یکساں طور پر منتظر ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ازبکستان کی سرپرستی میں ای سی اواپنی ترقی کو جاری رکھے گا اور ایشیا کے قلب میں ایک اہم اقتصادی اور سیاسی ادارے کے طور پر ابھرے گا۔