کیا بالی ووڈ کو جنوبی بھارت کی علاقائی فلموں سے سیکھنے کی ضرورت ہے؟

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 4 دسمبر 2021 18:20

کیا بالی ووڈ کو جنوبی بھارت کی علاقائی فلموں سے سیکھنے کی ضرورت ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 04 دسمبر 2021ء) اس سے بھی زیادہ آجکل مصنوعی حب الوطنی یا الٹرا نیشنلزم کا بھوت بالی ووڈ میں سر چڑھ کر بول رہا ہے اور پاکستان کو نشانہ بنا کر اور اقلیتوں کو ٹارگٹ کرنے کا فارمولہ ہاتھوں ہاتھ بک رہا ہے۔ اگر آپ کے پاس اس طرح کا کوئی آئیڈیا اور اسکرپٹ ہے، جس سے عوام کے جذبات بھڑکائے جائیں، تو بالی ووڈ کے پروڈوسر اس اسکرپٹ کو ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔

کہاں گئے وہ دن جب مزدور، مدر انڈیا اور بوٹ پالش جیسی فلمیں نہ صرف سوسائٹی کا عکس ہوتی تھیں، بلکہ تفریح کے ساتھ ساتھ ان میں ایک پیغام بھی چھپا ہوتا تھا۔ تین گھنٹے سینما ہال کی مصنوعی دنیامیں گزارنے کے بعد شائق عملی زندگی کے لیے کوئی پیغام یا سبق لیکر ہی نکلتا تھا۔

(جاری ہے)

مایوسیوں کے اندھیرے میں حال ہی میں ریلیز ہوئی، تمل زبان کی فلم جئے بھیم نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے بھارت کے علاقائی سینما میں جان بچی ہے اور وہ بغیر کسی خوف کے ابھی بھی سوسائٹی کے مسائل کو اجاگر کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔

کسی بڑے بینر اور نامور اداکاروں کے بغیر اس تمل فلم نے بہ خوبی ایک بہت اہم سماجی مسئلہ کو اجاگر کیا ہے جسے بالی ووڈ مکمل طور پر نظر انداز کرتا آ رہا ہے۔ پچھلے ہفتے میں نے جئے بھیم کو دو بار دیکھا، کیونکہ طویل عرصے میں ایک واحد فلم ہے جو معاشرے کو آئینہ دکھانے میں کامیاب رہی ہے۔ فلم کے عنوان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ فلم ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کی زندگی پر بنی ہوگی، جنہوں نے اچھوتوں اور پس ماندہ طبقات کے حقوق کے لیے جدوجہد کی تاکہ انھیں ہندوستانی آئین کے سامنے برابر کا شہری اور حصہ دار بنایا جاسکے۔

لیکن فلم میں کوئی امبیڈکر نہیں ہے، تاہم وہ اس فلم کے کرداروں کے ذریعے زندہ ہیں، جنہیں اشرافیہ، تعلیم یافتہ، سرکاری نظام کے ہاتھوں امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس فلم کے مرکزی کرداروں کو پولیس کی بربریت کا صرف اس وجہ سے سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ اونچی ذات سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔

یہ فلم دراصل تمل ناڈو کی ارولا برادری کا احاطہ کرتی ہے، جنہیں اچھوت کہا جاتا ہے۔

چھوت چھات کو غیر قانونی قرار دینے کے 50 سال سے زیادہ عرصے کے بعد بھی اس برادری کے افراد کو اب بھی گاؤں کے اندر رہنے کی اجازت نہیں ہے۔ ان کو گاوٗں سے باہر علیحدہ بستی میں ہی رہنا پڑتا ہے۔ فلم نے کچھ سوالات اٹھائے ہیں۔ جب کہ اچھوتوں کو اونچی ذات کے علاقوں تک رسائی نہیں ہے، وہ زمیندار کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں اور کھیتوں میں چوہے پکڑتے ہیں جوفصلوں کو تباہ کر سکتے ہیں۔

یہ چوہے انکے لیے ایک نعمت ہیں، کیونکہ وہ صرف چوہے کے گوشت سے ہی پیٹ پالتے ہیں۔

فلم انسان کی حیوانی جبلت کے کئی پہلوؤں کا احاطہ کرتی ہے۔ کہیں اگر جرم ہو، تو الزام اسی طبقے کے افراد کے سر تھوپا جاتا ہے۔ کیونکہ اعلیٰ ذات کے افراد کا خیال ہے کہ نچلی ذات والے جنم سے ہی چور ہوتے ہیں۔ یہ فلم نہ صرف سماجی انصاف اور انسانی حقوق کی تگ و دو کی داستان ہے، بلکہ یہ بھارتی کمرشل سنیما پر بھی کچھ سوالات اٹھا تی ہے، جس کے سامعین نہ صرف بھارت میں ہیں، بلکہ پوری دنیا میں ہیں۔

یہ چشم کشا فلم اس حقیقی بھارت کے روبرو کراتی ہے، جہاں عالی شان گھر، عیش و عشرت کے سامان اور درختوں کے گرد رقص کرنا صرف خواب میں ہی ممکن ہے۔ سماج کو درپیش سنجیدہ مسائل پر کمرشل سنیما نے تو گویا اپنے زبان پر تالا لگایا ہوا ہے اور وہ بس اپنے آپ کو الٹرا قوم پرست دکھانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ یہ جنوبی بھارت کا سنیما ہے جس نے کسی قدر سنیما کی لاج رکھی ہے۔

پہلے کرنن اور پھر پریرم پیرومل جیسی فلموں کے بعد، اس ماہ کے شروع میں ریلیز ہونے والی جئے بھیم، چیخ چیخ کر یاد دلا رہی ہیں، کہ حقیقی اور تصویری بھارت میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ ذات پات کے نظام کی چکی میں ابھی بھی کروڑوں لوگ پس رہے ہیں۔

سن 1947 میں جنوبی ایشاء کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہونے کے باوجود بھارت کا سنیما جس میں بالی ووڈ کا کلیدی کردار تھا، سیکولر رہا۔

اس کی بڑی وجہ اس سیکٹر میں اداکاروں، اسکرپٹ لکھنے والوں، گانے لکھنے والے شاعروں اور تکنیکی مدد فراہم کرنے والے افراد کی بڑی تعداد مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ اب کچھ عرصہ سے ہندو انتہاپسندوں کی مذہبی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کو یہ خیال ستا رہا ہے دلیپ کمار عرف یوسف خان سے شروع ہو کر شاہ رخ خان تک اداکاروں کی ایک بڑی کھیپ، سوسائٹی کے لیے رول ماڈل کا کام کرتے ہیں۔

اسی لیے پچھلے کئی برسوں سے بالی ووڈ ان کے نشانہ پر تھا۔ دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کرنے والوں کو مسلسل پریشان اور ہراساں کیا جا رہا ہے۔ اس برادری کے ارکان پر قتل، سازش، منشیات کی اسمگلنگ اور غدارانہ رویے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ اور جنہوں نے سماج سے متعلق حقیقی مسائل پر بات کرنے کی کوشش کی ہے، انہیں ہندوتوا کے غصے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

انتہا پسند نہ صرف سنیما کے سیکولر کردار کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، بلکہ اس صنعت کو ممبئی سے اتر پردیش میں منتقل کرنے کی بھی تجویز پیش کر رہے ہیں، تاکہ اس پر گہری نظر رکھی جائے۔ فلم صنعت کو سیکولر اور ہندوتوا کے خانوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ جہاں کنگنا رناؤت اور اکشے کمار جیسے اداکاروں کو انڈسٹری کے ہندو چہروں کے طور پر اب پہچانا جاتا ہے، جاوید اختر اور سوارا بھاسکر جیسے اداکار جو حکومت پر تنقید کرتے رہے ہیں انہیں سیکولر خانے میں رکھا گیا ہے اور انکو ہندو ٹرولز کے سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ خبریں بھی آرہی ہیں، کہ پروڈیوسروں کو بتایا گیا ہے کہ ایسے آرٹسٹوں کو کام دینے سے ان پر شکنجہ کس سکتا ہے اور ان کو ٹیکس، منشیات وغیرہ کے جنجا ل میں پھنسا کر ان کی زندگی دوبھر کرکے ان کے کاروبار کو لپیٹ دیا جائیگا۔

یاد کیجئے یہ وہی بالی ووڈ ہے جس کے اداکار 2014 کے قبل ٹویٹر پر مہنگائی اور انڈسٹری میں محصول بڑھانے جسے مسائل پر بات کرتے تھے۔

انہیں لگتا ہے کہ اب اپنے آپ کو ایک کٹہرے میں بند کرکے رکھ دیا ہے۔ کیا اب وقت نہیں آیا ہے کہ کسانوں کی طرح بالی ووڈ بھی جراٗت کا مظاہر ہ کرکے جنوبی ہند کی فلم انڈسٹری سے کچھ سیکھے اور ایک تاریخ رقم کرے۔ یہ بتانا اشد ضروری ہے کہ فلمیں صرف تفریح اور ڈرامے سے متعلق نہیں ہوتی ہیں، بلکہ صحافت کی طرح ان کے کندھوں پر ایک بڑی سماجی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔