بلوچستان تھنک ٹینک نیٹ ورک (بی ٹی ٹی این ) کی جانب سے آئی ٹی یونیورسٹی میں سیمینار کا انعقاد

منگل 24 مئی 2022 14:30

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 24 مئی2022ء) بلوچستان تھنک ٹینک نیٹ ورک (بی ٹی ٹی این ) کی جانب سے آئی ٹی یونیورسٹی میں"بلوچستان کی جیو اسٹریٹجک اہمیت، بڑی طاقتوں کی سیاست اوراس کے اثرات کا انتظام"کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا ۔سیمینار میں بلوچستان کی مختلف پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں بشمول BUITEMS کوئٹہ، ایس بی کے ، وومن یونیورسٹی کوئٹہ، یونیورسٹی آف تربت اور بی یو ای ٹی خضدار کے وائس چانسلرز نے شرکت کی۔

تقریب میں سابق گورنر بلوچستان جسٹس (ر)امان اللہ یاسین زئی نے بھی شرکت کی جبکہ قائم مقام گورنر بلوچستان میر جان محمد خان جمالی مہمان خصوصی کے طور پر موجود تھےمختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے مقررین نے تھیم سے متعلق مختلف موضوعات پر اظہار خیال کیا۔

(جاری ہے)

بریگیڈیئر آغا احمد گل (ر) نے سیمینار میں اپنے افتتاحی خطاب میں کہا، بلوچستان ایک جیو پولیٹیکل کرش زون میں واقع ہے جسے بڑی طاقتوں کے مسابقتی مطالبات کا سامنا ہے یہ ہمارے اہم قومی مفادات پر سمجھوتہ کیے بغیر تمام مسابقتی بڑی طاقتوں کو کنیکٹیوٹی فراہم کرنے کا ایک چیلنج ہے لیکن یہ ایک بہترین موقع ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے لیے رکاوٹ بننے کے بجائے تمام بڑی طاقتوں کے لیے سہولت کار بن کر اس کا انتظام کیسے کیا جائے بی ٹی ٹی این) کے پہلے سیشن سے سابق سفیر اعزاز احمد چوہدری (ڈی جی آئی ایس آئی ) نے سیمینار کے انعقاد میں بی ٹی ٹی این کی کوششوں کو سراہا۔ ڈاکٹر عطیہ علی کاظمی (سینئر پالیسی ریسرچ اینالسٹ، نسٹ) نے کہا کہ بلوچستان کی ترقی کے لیے ہمیں بلوچستان کے لوگوں کی سرزمین اور اقدار کو سمجھنا ہوگا،جنوبی بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے ہمیں تمام اسٹیک ہولڈرز کے باہمی اتفاق رائے کی ضرورت ہے ۔

محترمہ ماریہ ملک (ڈائریکٹر ریسراچ بی ٹی ٹی این) نے اپنی گفتگو میں کہا کہ جنوبی بلوچستان میں سرگرم بلوچ علیحدگی پسندوں کو غیر دوست ریاستیں اپنے مفادات کے طور پر استعمال کر رہی ہیں،اس تناظر میں اگر جنوبی بلوچستان کے لوگوں کے حقیقی تحفظات کو بروقت اور موثر طریقے سے دور نہیں کیا گیا تو غیر دوست ریاستیں بلوچستان کے مسئلے کے طور پر اس صورتحال کا استحصال کرتی رہیں گی۔

سابق گورنر بلوچستان اویس احمد غنی نے سیمینار سے خطاب میں موجودہ جغرافیائی سیاسی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے چین اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کے سہ فریقی اتحاد کا مشورہ دیا۔ ڈاکٹر میر سعادت بلوچ نے جنوبی بلوچستان کے عوام اور حکومت کے درمیان رابطہ منقطع ہونے کو بلوچستان کے اہم مسائل میں سے ایک قرار دیا۔ڈاکٹر سادات نے کہا کہ جنوبی بلوچستان کے حوالے سے جو بیانیہ تیار کیا جاتا ہے وہ فطری طور پر بدنیتی پر مبنی ہے۔

اگر کوئی خاتون گرفتار ہوتی ہے تو سوشل میڈیا یہ نہیں کہتا کہ اسے گرفتار کر لیا گیا ہے بلکہ یہ کہتا ہے کہ اسے اٹھا لیا گیا ہے،اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنوبی بلوچستان میں عسکریت پسندی کم ہو رہی ہے اور اس کے بارے میں صرف شور ہی بڑھ رہا ہے۔ڈاکٹر عبدالقادر بلوچ نے ایران پاکستان تعلقات کے امکانات کی نشاندہی کی اور بتایا کہ دونوں ممالک تجارت اور نقل و حرکت میں اضافے کے مواقع سے کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالقادر نے کہا کہ ہمیں ایران کے حوالے سے اپنی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو کہ آزادی کے وقت پاکستان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا انہوں نے امید ظاہر کی کہ دونوں ممالک ایران اور پاکستان کے تعلقات کے سنہری دور کو دوبارہ زندہ کریں گے جو ہمارے درمیان 1950 اور 1960 کی دہائیوں میں تھا ۔محترمہ فائزہ میر نے کہا کہ ہمیں پورے بلوچستان بلکہ بالخصوص جنوبی حصوں کی ترقی کے لیے مفاہمت اور تبدیلی کی پالیسیاں اپنانے کی ضرورت ہے،ریاست کو چاہیے کہ وہ بلوچستان، فاٹا، کراچی اور دیگر تمام خطوں کے مختلف علاقوں کے لیے ان کے مسائل کے مطابق مختلف پالیسیاں اپنائے۔

نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل خالد احمد قدوائی (ر) نے بھی موضوع کے عنوان اور مناسبت سے مقررین کی رائے اور تجاویز کو مفید قرار دیا۔