کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 جون2022ء) چیئرمین پیپلزپارٹی
بلاول بھٹو زرداری نے دسمبر 2020 میں ملیر ایکسپریس وے کی بنیاد رکھی تو ملیر ندی کے اطراف مقامی آبادی کے ڈی ایچ اے کو
کراچی حیدرآباد موٹر وے سے جوڑنے کیلئے 39 کلو میٹر طویل کوریڈور کی تعمیر کیلئے ان کی زمین لئے جانے کے باعث گھروں سے محروم ہونے کا خطرہ پیدا ہوگیا۔
تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ ان کے خدشات دور ہوگئے ہیں کیونکہ حکومت نے 400 گھروں کو مسمار ہونے سے بچانے کیلئے ٹیکس دہندگان کے مزید کئی ملین روپے خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ گھر ملیر کے سموں اور لاسی گوٹھ میں واقع ہیں، اگر حکومت اپنے پہلے منصوبے پر قائم رہتی تو یہ گھر تباہ ہوچکے ہوتے تاہم معجزات رونما ہوتے ہیں یا شاید سیاسی دبا نے کام کیا اور
سندھ حکومت نے ان دونوں بستیوں پر 2 کلومیٹر طویل ایلیویٹڈ ایکسپریس وے بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
(جاری ہے)
گزشتہ ماہ، وزیراعلی
سندھ مراد علی شاہ نے
سندھ پالیسی بورڈ کا اجلاس بلایا جس میں ملیر ایکسپریس وے (ایم ای ایکس)کے ڈیزائن اور الائنمنٹ میں معمولی ایڈجسٹمنٹ کا جائزہ لیا گیا۔ایکسپریس وے کی تعمیر کے دوران املاک کو کم سے کم
نقصان کیلئے
سندھ حکومت نے ڈیزائن اور الائنمنٹ میں تبدیلی کی منظوری دیدی۔اپنے ماضی کے ڈیزائن کو چھوڑتے ہوئے
سندھ حکومت نے سموں گوٹھ اور لاسی گوٹھ پر 2 کلومیٹر طویل ایلیویٹڈ ایکسپریس وے تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ مقامی لوگوں کے گھروں کی حفاظت کی جاسکے، جو ملیر ایکسپریس وے کے روٹ کے راستے میں آرہے ہیں۔
ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر سے متعلق اس پیشرفت کی تصدیق ایم ای ایکس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر نیاز سومرو نے بھی کی ہے۔تاہم سموں اور لاسی گوٹھ پر ایلیویٹڈ ایکسپریس وے کی تعمیر سے اس منصوبے کی لاگت میں تقریبا 4 ارب روپے کا اضافہ ہوگا۔منصوبے میں اس معمولی تبدیلی کا بنیادی مقصد یہاں کئی دہائیوں سے آباد 400 گھروں کا تحفظ ہے۔حکام اس بات پر قائل ہوچکے ہیں کہ تازہ تبدیلیوں کے نتیجے میں دونوں مقامات پر کوئی بھی گھر متاثر نہیں ہوگا۔
اس کے علاوہ نئی الائنمنٹ کے نتیجے میں صرف 10 ایکڑ زرعی زمین متاثر ہوگی جس کا پہلے تخمینہ 148 ایکڑ لگایا گیا تھا۔انہوں نے مزید کہا کہ حکام نے
نقصان کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ معاوضے کی مد میں خزانے کو بچانے کیلئے بار بار ڈیزائن کا جائزہ لیا ہے۔حکام نے دعوی کیاہے کہ ملیر ایکسپریس وے کیلئے زمین کے حصول کے مقابلے میں اس پر فلائی اوور کی تعمیر سستی تھی۔
حکام کے مطابق بورڈ آف ریونیو کے افسران کی جانب سے کئے گئے سروے کے مطابق مطلوبہ زمین کے حصول کیلئے معاوضے کی ادائیگی کا تخمینہ تقریبا 10 ارب روپے لگایا گیا تھا۔زمین کے حصول کی قیمت زیادہ ہے کیونکہ حکومت کو متاثرین کو ان کی زمین کیلئے مارکیٹ ریٹ کے مطابق رقم ادا کرنا پڑے گی۔پی پی پی کے یوسف بلوچ حال ہی میں اس علاقے پی ایس 88 ملیر ٹو سے منتخب ہوئے تھے۔
انہوں نے 16 فروری 2021 کے ضمنی
انتخابات میں 16 دیگر امیدواروں سے مقابلہ کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی تھی۔حلقے میں ایک لاکھ 45 ہزار 627 رجسٹرڈ ووٹر ہیں، اس کے متاثر ہونیوالے دو دیہات میں مجموعی طوع پر 2 ہزار 500 سے بھی کم ووٹرز بنتے ہیں۔سموں گوٹھ میں 4
مردم شماری بلاک کوڈ رجسٹرڈ ہیں اور رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد ایک ہزار 959 ہے جبکہ لاسی گوٹھ میں صرف 392 ووٹرز ہیں۔
معاملے سے باخبر حکام نے بتایا کہ حکومت نے ملیر ایکسپریس وے کے راستے میں آنیوالی فوجی اراضی بھی دوبارہ حاصل کرلی ہے۔حکام نے بتایا کہ ملیر ایکسپریس وے روٹ پر تقریبا 81.77 ایکڑ فوجی اراضی ہے، جس میں سے 39.14 ایکڑ پاک
فوج کے پاس اور 42.63 ایکڑ
پاک فضائیہ کی ہے۔ اس کا آغاز کورنگی سے اور اختتام چکرا پوائنٹ پر ہوتا ہے۔ یہ پورا علاقہ جنگلی جھاڑیوں اور ہاتھی گھاس سے ڈھکا ہوا ہے۔
یہ ایک قسم کی گھاس ہے ہے جسے عام طور پر ہاتھیوں کو کھلانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ہاتھی گھاس کا نام دیا گیا ہے، یہ گھاس
دبئی برآمد کی جارہی ہے۔ملیر ایکسپریس وے ایک 18 فٹ بلند ایلیویٹڈ راستہ ہے جو کورنگی کے پی ٹی فلائی اوور سے شروع ہو کر کاٹھور(ایم نائن)سپر ہائی وے پر اختتام پذیر ہوگا۔ملیر ایکسپریس وے کی لمبائی 39 کلو میٹر اور تخمینی لاگت 27 ارب روپے ہے۔
اس میں مجوزہ پل کی لاگت شامل نہیں ہے۔یہ منصوبہ ملیر ایکسپریس وی(پرائیوٹ)لمیٹڈ کے زیر انتظام بنے گا جبکہ لویا ایسوسی ایٹ اور زیرک انٹرنیشنل (پرائیویٹ)لمیٹڈ منصوبے کے ڈیزائن پرکام کررہے ہیں جبکہ اس کا آڈٹ انٹرنیشنل فرم اے ایف فرگوسن کرے گی۔منصوبے کے تکنیکی کنسلٹنٹ میں انجینئرنگ کنسلٹنٹس انٹرنیشنل (ای سی آئی ایل)، ڈبل اے ایسوسی ایشن(رائیویٹ)لمیٹڈ اور ایکسپوننٹ انجینئرز(پرائیویٹ)لمیٹڈ شامل ہیں۔ منصوبے کیلئے ماحولیاتی کنسلٹنٹ ای ایم سی
پاکستان(پرائیویٹ) لمیٹڈ ہیں۔منصوبے میں حکومت کا حصہ 4.25 ارب روپے ہے، ملیر ایکسپریس وے (پرائیویٹ)لمیٹڈ 5.75 ارب روپے فراہم کرے گی جبکہ باقی رقم پانچ بینکوں پر مشتمل کنسورشیم قرض کی بنیاد پر فراہم کریگا۔