غلط بیانی تسلیم کرنے پر فیصل ووڈا ایک ٹرم کے لئے بطور رکن قومی اسمبلی نااہل

جمعہ 25 نومبر 2022 23:02

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 25 نومبر2022ء) سپریم کورٹ نے غلط بیانی تسلیم کرنے پر فیصل ووڈا کو ایک ٹرم کے لئے بطور رکن قومی اسمبلی نااہل کردیا ہے اور قرار دیا ہے کہ ایک ٹرم کی نااہلیت کی وجہ سے وہ سینیٹ الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل تین رکنی بینچ نے غلط بیانی تسلیم کرنے پر فیصل ووڈا کی اپیل جزوی طور پر منظور کرکے تاحیات نااہلی کاہائی کورٹ اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم کردیا ۔

عدالت نے اپنے آرڈر میں قراردیا کہ فیصل ووڈا نے پیش ہوکر تسلیم کیا کہ انھوں نے 2018کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشست این اے 249 کراچی سے کاغذات نامزدگی میں غلط بیانی کی۔

(جاری ہے)

غلط بیانی تسلیم کرنے پر فیصل واوڈا موجودہ قومی کو اسمبلی کی میعاد تک نااہل کردیا جاتا ہے۔آرڈر میں کہا گیا کہ قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہونے کے بعد فیصل واوڈا 2021 میں سینیٹر منتخب ہوئے لیکن پانچ سال کی نااہلی کی وجہ سے وہ سینیٹ کے ممبر نہیں رہ سکتے ۔

اپنے آرڈر میں عدالت نے آبزرویشن دی کہ فیصل ووڈا کے مطابق وہ نیک نیتی کے تحت سینیٹ سے بھی استعفی دینے کو تیار ہیں، فیصل ووڈا کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ اپنا استعفی چیئرمین سینیٹ کو بھجوائیں۔قبل ازیں کیس کی سماعت شروع ہوئی تو فیصل ووڈ ا عدالت کے حکم پر پیش ہوئے ۔چیف جسٹس نے فیصل ووڈا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ کو شرمندہ کرنے کے لیے نہیں بلایا ،ہمارایہ ارادہ نہیں کہ منتخب اراکین کو بے توقیر کیا جائے لیکن نامزدگی اور ڈیکلریشن کے بارے میں اراکین کو سنجیدہ ہونا ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا آپ کہہ دیں کہ اُس وقت کے قانون کے مطابق آپ رکن اسمبلی بننے کے اہل نہیں تھے، 15 جون 2018 کو آپ نے امریکی شہریت ترک کرنے کی درخواست دی لیکن شہریت ترک کی نہیں تھی، غلطی تسلیم کرتے ہیں تو آپ موجودہ اسمبلی کی مدت شروع ہونے سے نااہل تصور ہوں گے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ شہریت ترک کرنے کا سرٹیفکیٹ کب کا ہے اور اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ کب دیا۔

فیصل واوڈا نے بتایا کہ دوہری شہریت 25 جون 2018 کو ترک کی جبکہ قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ 30 مارچ 2021 کو دیا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں حصہ لیا تو دہری شہریت نہیں تھی ۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا مان جائیں عدالت کی اپروچ سزا دینا نہیں،لیکن سینیٹ سےبھی مستعفی ہونا پڑے گا،اس معاملہ پر عدالت نے دس منٹ مشورہ بھی کیا، وہ تین سال تک اپنی غلطی بیانی پر ڈٹے رہے، 3 سال تک قومی اسمبلی کی رکنیت رکھی، آپ نے تین سال تک سب کو گمراہ کیا، عدالت کے سامنے پہلے معافی مانگیں اور پھر کہیں کہ سینیٹ سے استعفیٰ دیتا ہوں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اچھی نیت سے سینیٹ سے بھی مستعفی ہوجائیں ۔چیف جسٹس نے کہا اگر عدالت کے سامنے معافی مانگ لیں گے اور اچھی نیت سے استعفیٰ دیں گے تو نااہلی 5 سال کی ہوگی، استعفیٰ نہ دینے کی صورت میں آپ کے خلاف 62 ون ایف کی کارروائی ہوگی۔فیصل ووڈا نے غلطی تسلیم کرتے ہوئے بیان دیا کہ میں عدالت سے غیر مشروط معافی مانگتا ہوں، جھوٹا بیان حلفی دینے کی نیت نہیں تھی، عدالت کا جو حکم ہوگا وہ قبول ہوگا۔

جسٹس عائشہ ملک نے فیصل ووڈ اکو کہا آپ سے کہا جا رہا ہے وہ عدالت کے سامنے خود کہیں۔ فیصل واوڈا نے کہا کہ تسلیم کرتا ہوں کہ اچھی نیت سے خود استعفیٰ دیا، آرٹیکل 63 ون سی کے تحت نااہلی تسلیم کرتا ہوں۔ عدالت نےغیر مشروط معافی قبول کرتے ہوئے تاحیات نااہلی کا فیصلہ کالعدم کردیا ۔