کیا جناح کی مسلم لیگ اور بی جے پی میں کوئی تعلق ہے؟

DW ڈی ڈبلیو جمعہ 2 جون 2023 13:40

کیا جناح کی مسلم لیگ اور بی جے پی میں کوئی تعلق ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 جون 2023ء) بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن کانگریس پارٹی کے سابق صدر راہول گاندھی نے واشنگٹن ڈی سی میں جمعرات کے روز صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ پوری طرح سیکولر جماعت ہے۔ ان کے اس بیان پر بھارت میں سیاسی ہنگامہ شروع ہوگیا۔ حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اس کی سخت مخالفت کرتے ہوئے اسے افسوس ناک قرار دیا ہے۔

بی جے پی کے رہنما اور مرکزی وزیر کرن رجیجو نے ٹویٹ کر کے کہا کہ یہ انتہائی بدقسمتی ہے کہ اس ملک کے کچھ لوگ اس شخص کی حمایت کر رہے ہیں، جو مسلم لیگ کو سیکولر سمجھتا ہے۔

آرایس ایس کے اہم اجلاس میں جناح کی تصویر کیوں؟

سابق وزیر قانون رجیجو نے سوال کیا کہ محمد علی جناح کی مسلم لیگ جو مذہبی خطوط پر قائم کی گئی تھی اور جو انڈیا کی تقسیم کے لیے ذمہ دار ہے وہ سیکولر کیسے ہوسکتی ہے؟

راہول نے کہا کیا تھا؟

راہول گاندھی، جنہیں عدالت کے ایک فیصلے کے بعد پارلیمان کی رکنیت سے محروم کر دیا گیا ہے، ان دنوں امریکہ کے دس روزہ دورے پر ہیں۔

(جاری ہے)

وہ مختلف یونیورسٹیوں اور اداروں میں تقریریں کر رہے ہیں اور میڈیا اور عام لوگوں سے بات چیت کر رہے ہیں۔ جس میں وہ بالعموم مودی حکومت اور بھارت کی موجودہ صورت حال اور مستقبل کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

جمعرات کے روز واشنگٹن میں نیشنل پریس کلب میں میڈیا سے با ت چیت کے دوران انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا، "مسلم لیگ مکمل طور پر ایک سیکولر جماعت ہے۔

مسلم لیگ کے بارے میں غیر سیکولر جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ میرے خیال میں جس شخص نے یہ سوال پوچھا ہے اس نے مسلم لیگ سے متعلق مطالعہ نہیں کیا ہے۔"

بھارت کا جناح ٹاور: تنازعہ کیا ہے؟

دراصل بھارتی ریاست کیرالہ میں انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل) کانگریس کی قیادت والی یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ حکومت کی اتحادی ہے۔ وہ بھارت کے الیکشن کمیشن سے تسلیم شدہ سیاسی جماعت ہے۔

راہول گاندھی پارلیمان سے نااہل قراردیے جانے سے قبل کیرالہ کے وائناڈ حلقے کی نمائندگی کرتے تھے۔

تقسیمِ ہند کے ذمہ دار جناح تھے، بی جی پی موقف پر قائم

بی جے پی آئی ٹی سیل کے انچارج امیت مالویہ نے راہول گاندھی کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ ریاست میں اقتدار میں برقرار رہنے کے لیے مسلم لیگ کو سیکولر جماعت کہنا راہول گاندھی کی مجبوری ہے۔

’اویسی، محمد علی جناح کے نئے اوتار ہیں‘: بی جے پی

انہوں نے ٹویٹ کر کے کہا، "جناح کی مسلم لیگ انڈیا کو مذہبی خطوط پرتقسیم کرنے کی ذمہ دار ہے۔ راہول گاندھی اسے سیکولر جماعت کہہ رہے ہیں۔ یہ لاعلمی انتہائی خطرناک ہے۔"

کانگریس پارٹی کا جواب

کانگریس نے جناح کی مسلم لیگ کا کیرالہ کی مسلم لیگ سے موازنہ کرنے پر بی جے پی رہنماؤں کے بیانات کی سخت مذمت کی ہے۔

کانگریس کے میڈیا اور کمیونیکیشن شعبے کے سربراہ پون کھیڑا نے ایک ٹویٹ کرکے کہا، "ان پڑھ ہو بھائی؟ کیرل کی مسلم لیگ اور جناح کی مسلم لیگ میں فرق نہیں معلوم؟ جناح والی مسلم لیگ وہ تھی، جس کے ساتھ تمہارے آباؤ اجداد نے اتحاد کیا تھا۔ دوسری والی، مسلم لیگ وہ ہے، جس کے ساتھ بی جے پی نے اتحاد کیا تھا۔"

کیا بی جے پی اور مسلم لیگ میں واقعی رشتہ رہا ہے؟

ہندوتوا کی علمبردار آر ایس ایس کے ہیڈکوارٹر ناگپور میں سن 2012 کے ناگپور میونسپل کارپوریشن کے انتحابات میں 62 سیٹیں جیت کر بی جے پی واحد سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تھی۔

تاہم 145رکنی کارپوریشن میں سادہ اکثریت کے لیے بی جے پی کو کم از کم 76 اراکین کی حمایت کی ضرورت تھی۔ اس وقت بی جے پی نے دیگر چھوٹی جماعتوں اور آزاد اراکین کے علاوہ انڈین یونین مسلم لیگ کے دو اراکین کی بھی حمایت حاصل کی تھی۔

ممبئی میں بانئ پاکستان کی رہائش گاہ گرا دی جائے، بی جے پی رہنما

ہندوقوم پرست نظریات کی حامی ہندو مہاسبھا نے آزادی سے قبل صوبائی حکومتوں میں مسلم لیگ کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔

کنگس کالج لندن میں سیاسیات کے پروفیسر شارق لالی والا نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ہندوتوا کے نظریہ ساز اور ہندو مہاسبھا کے اہم رہنما شیاما پرساد مکھرجی نے بنگال میں 1941ء میں فضل الحق حکومت میں وزیر خزانہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔

اقتدار میں آنے کے بعد سے بی جے پی شیاما پرساد مکھرجی کے سماجی انصاف کے ماڈل کو نافذ کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔

چودہ اگست کو'تقسیم کی ہولناک یادوں کا دن' منایا جائے گا، مودی

شارق لالی والا کے مطابق سندھ اور شمال مغربی صوبہ سرحد میں بھی ہندو مہاسبھا مسلم لیگ کے ساتھ اتحادی حکومتوں میں شامل تھی اور 3 مارچ 1943ء کو سندھ قانون ساز اسمبلی میں جب "انڈیا کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک" کی قرارداد منظور کی گئی اس وقت بھی ہندو مہاسبھا کے رہنما حکومت میں شامل تھے۔ گوکہ انہوں نے اس قرارداد کی مخالفت کی لیکن حکومت میں برقرار رہے۔