پاکستانی سیلاب زدگان ایک سال بعد بھی تعمیر نو کے وعدوں کی تکمیل کے منتظر

DW ڈی ڈبلیو منگل 6 جون 2023 15:40

پاکستانی سیلاب زدگان ایک سال بعد بھی تعمیر نو کے وعدوں کی تکمیل کے منتظر

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 جون 2023ء) پاکستان میں گزشہ موسم گرما میں آئے تباہ کن سیلاب میں نور بی بی نے اپنی ماں، اپنی بیٹی اور اپنے سر کی چھت کھو دی۔ اس قدرتی آفت کا شکار ہونے کے ایک سال بعد بھی وہ بے گھر ہیں۔ نور بی بی اپنے خاندان کے بچ جانے والے افراد کے ساتھ صوبہ سندھ میں سیلاب سے تباہ ہو جانے والے ایک گاؤں صحبت کھوسہ میں ایک عارضی خیمے میں رہائش پذیر ہیں۔

پاکستان: غذائی عدم تحفظ کی صورتحال انتہائی تشویش ناک

وعدے، جو وفا نہ ہو سکے

لگ بھگ ساٹھ سالہ نور، جو ایک فارم ورکر ہیں، کا کہنا ہے کہ وہ کسی ایسے نیک دل شخص کے لیے دعا گو ہیں، جو انہیں کسی اونچائی پر کچھ اچھے گھر بنانے میں مدد کرے۔

پاکستان میں لاکھوں سیلاب متاثرین بنیادی صحت سہولیات کے منتظر

نور نے اے ایف پی کو بتایا، ''اگر سیلاب دوبارہ آیا تو ہم اتنا بڑا نقصان برداشت نہیں کر پائیں گے۔

(جاری ہے)

‘‘ دوسری جانب حکومت نے پاکستان کے سیلاب سے تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نوکا وعدہ کر رکھا ہے تاکہ ان علاقوں کے رہائشی مستقبل کے شدید موسم سہنے کے قابل ہوں۔ تاہم حکومت اپنے اس وعدے کو بڑی حد تک عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہی ہے۔

گزشتہ مون سون کے سیزن میں آنے والے سیلاب سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آ گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں 1,700 افراد ہلاک اور 80 لاکھ سے زائد بے گھر بھی ہوئے۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی ان موسمی بارشوں کو بھاری اور غیر متوقع بنا رہی ہے، جس سے ملک میں سیلاب سے بچاؤ کی فوری ضرورت بڑھ رہی ہے۔

ایسا کرنے میں ناکامی کا سب سے زیادہ اثر ان غریبوں لوگوں کو ہو گا، جو بارشوں اور سیلاب میں سب سے زیادہ متاثر ہونے کے خدشے سے دوچار علاقوں میں رہتے ہیں۔

لاکھوں پاکستانی پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں

اپنی مدد آپ

سندھ کے ضلع دادو کا شمار سیلاب سے شدید متاثر ہ علاقوں میں ہوتا ہے تاہم یہاں کوئی بحالی نظر نہیں آتی۔

عوامی سہولیات کے بنیادی ڈھانچے ابھی تک خستہ حال ہیں اور مکانات کی تعمیر نو کا کام مقامی لوگوں یا این جی اوز پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

اسلام آباد حکومت نے جنوری میں 16.3 بلین ڈالر مالیت کی 'لچکدار بحالی اور تعمیر نو کے فریم ورک‘ کا اعلان کیا تھا لیکن یہ کاغذوں تک ہی محدود ہے۔ بین الاقوامی عطیہ دہندگان نے بھی نو بلین ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن زیادہ تر نقد رقم قرضوں کی صورت میں آئے گی۔

دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی اکثریت کی فصلیں سیلاب میں بہہ گئیں، جس کی وجہ سے وہ روزی روٹی سے محروم ہو گئے۔ یہ ان کے روزگار کا وہ واحد ذریعہ تھا، جس کی مدد سے وہ اپنی بحالی کی راہ ہموار کر سکتے تھے۔ صحبت کھوسہ کے رہائشی مل جل کر صرف اتنی رقم اکٹھی کر سکے ہیں، جو صرف بیت الخلا اور پانی کے ٹینک کی تعمیر کے لیے کافی ہے۔

ان متاثرین کی سب سے بڑی امید ایک پاکستانی این جی او الخدمت فاؤنڈیشن ہے، جو اس ایک گاؤں میں تقریباً 30 نئے گھروں کی تعمیر کا منصوبہ رکھتی ہے۔

دادو میں الخدمت کے کوآرڈینیٹر علی محمد نے کہا،''ایسا لگتا ہے کہ یہاں حکومت کا کوئی وجود نہیں ہے اور اگر حکومت کی طرف سے کچھ کیا جاتا ہے تو وہ صرف کرپشن ہے۔‘‘

پاکستان اس وقت دوہرے سیاسی اور معاشی بحرانوں میں گھرا ہوا ہے، جن کی وجہ سے تمام عوامی فلاح کے سارے سرکاری اقدامات ٹھپ پڑ گئے ہیں۔ لیکن کئی دہائیوں سے پھیلی بدعنوانی اور بدانتظامی بھی اس صورتحال کی ذمہ دار ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی طویل عرصے سے سندھ میں حکمران چلی آ رہی ہے۔

بلاول نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا، ''بہتر تعمیرایک مہنگا کام ہےاور نقصان کا حجم بہت بڑا ہے۔ وفاقی حکومت نے جو کچھ کیا ، اس پر بات نہیں کر سکتے لیکن ہم نے (صوبائی سطح پر)کچھ اقدامات شروع کیے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ان اقدامات میں سے ایک این جی اوز اور خیراتی تنظیموں کے ذریعے گھروں کی تعمیر نو کے لیے مالی اعانت ہے۔

تاہم اے ایف پی کی طرف سے الخدمت اور دو دیگر این جی اوز کے انٹرویوز سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں سرکاری طور پر کوئی پیسہ نہیں ملا اور وہ مکمل طور پر نجی فنڈز پر انحصار کرتی ہیں۔ الخدمت کی کوششوں کی بدولت ضلع دادو میں چند درجن گھر تعمیر ہو چکے ہیں لیکن یہ سیلاب میں تباہ شدہ 20 لاکھ کے قریب بھی نہیں۔

غیر قانونی تعمیرات

سیاحوں کی جنت کہلانے والےشمال مغربی پاکستان میں واقع وادی سوات بھی گزشتہ سال کے سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئی۔

دریائے سوات کے کنارے پر واقع سینکڑوں ہوٹل، ریستوراں، کاروبار اور گھر سیلابی ریلوں میں بہہ گئے۔ سوات کے ڈپٹی کمشنر عرفان اللہ خان وزیر نے کہا کہ ایسی تباہی کو دوبارہ رونما ہونے سے روکنے کے لیے حکام نے ''دریا پر کسی بھی قسم کی عمارت کی تعمیر پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔‘‘

تاہم ان سرکاری دعووں کے برعکس ایک بار پھر دریائے سوات کے کنارے بڑے پیمانے پر تباہ ہونے والی عمارتوں کی تعمیر نو یا تو مکمل ہو چکی ہے یا اب بھی جاری ہے۔

ایک مقامی ہوٹل کے مالک کے مطابق لوگ دھڑا دھڑ غیر قانونی تعمیرات جاری رکھے ہوئے ہیں اور سرکاری حکام اس سے صرف نظر کیے ہوئے ہیں۔

مقامی رہائشیوں کا یہ بھی شکوہ ہے کہ سرکاری معاوضے کی رقم بھی اتنی کم ہے کہ اس سے مہنگائی کے اس دور میں گھروں کی تعمیر ممکن نہیں۔

ش ر ⁄ ک م (اے ایف پی)