انسانی حقوق: مودی کے دورہ امریکہ کے موقع پر احتجاج کے منصوبے

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 17 جون 2023 14:20

انسانی حقوق: مودی کے دورہ امریکہ کے موقع پر احتجاج کے منصوبے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 جون 2023ء) امریکہ میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی گروپ اگلے ہفتے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے واشنگٹن کے سرکاری دورے کے دوران احتجاجی مظاہروں کے منصوبے بنا رہے ہیں، جس کی وجہ وہ بھارت میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورت حال کو قرار دیتے ہیں۔ ماہرین کو تاہم توقع نہیں کہ واشنگٹن انتظامیہ عوامی سطح پر نئی دہلی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنائےگی۔

بھارت میں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں، امریکہ

واشنگٹن اور نیو یارک میں مظاہروں کی منصوبہ بندی

انڈین امریکن مسلم کونسل، پیس ایکشن، ویٹیرنز فار پیس اور بیتیسڈا افریقن سیمٹری کولیشن نامی تنظیموں کا 22 جون کو صدر جو بائیڈن اور نریندر مودی کی مجوزہ ملاقات کے موقع پر وائٹ ہاؤس کے سامنے مشترکہ احتجاج کرنے کا منصوبہ ہے۔

(جاری ہے)

واشنگٹن دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ساتھ قریبی تعلقات چاہتا ہے، جسے وہچین کے خلاف ایک طاقت کے طور پر دیکھتا ہے لیکن انسانی حقوق کے حامیوں کو خدشہ ہے کہ جغرافیائی سیاست انسانی حقوق کے مسائل کو پس پشت ڈال دےگی۔

امریکہ نے کہا ہے کہ بھارت سے متعلق اس کے انسانی حقوق سے متعلق خدشات میں بھارتی حکومت کی طرف سے مذہبی اقلیتوں، اختلاف رائے رکھنے والوں اور صحافیوں کو نشانہ بنایا جانا شامل ہیں۔

بھارت سے تعلقات میں مداخلت نہ کریں، امریکہ کو چین کی تنبیہ

’مودی ناٹ ویلکم‘

احتجاج کرنے والے ان گروپوں نے ایسے بینر تیار کر رکھے ہیں، جن پر لکھا ہے 'مودی ناٹ ویلکم‘ اور 'بھارت کو ہندو بالادستی سے بچاؤ‘۔ نیو یارک میں ایک اور پروگرام کی منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے، جس میں ''ہاؤڈی ڈیموکریسی‘‘ کے عنوان سے ایک شو پیش کیا جائے گا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے پالیسی سازوں، صحافیوں اور تجزیہ کاروں کو اگلے ہفتے واشنگٹن میں بی بی سی کی تیارکردہ مودی پر ایک دستاویزی فلم کی اسکریننگ کے لیے بھی مدعو کیا ہے، جس میں 2002 کے گجرات فسادات کے دوران ان کی قیادت پر سوال اٹھایا گیا تھا۔

صدر بائیڈن کو لکھے گئے ایک خط میں ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا ڈویژن کی ڈائریکٹر ایلین پیئرسن نے وائٹ ہاؤس پر زور دیا کہ وہ مودی کے دورے کے دوران بھارت میں انسانی حقوق کے بارے میں عوامی اور نجی طور پر خدشات کا اظہار کرے۔

انہوں نے روئٹرز کے ساتھ شیئر کیے گئے اس خط میں کہا، ''ہم آپ سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ آپ وزیر اعظم مودی کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا استعمال کرتے ہوئے مودی پر زور دیں کہ وہ اپنی حکومت اور اپنی پارٹی کو ایک مختلف سمت میں لے جائیں۔‘‘

تجزیہ کاروں نے کہا کہ ان سب باتوں کے باوجود بائیڈن اور مودی کی بات چیت میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔

محکمہ خارجہ کے ایک سابق اہلکار اور واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز سے وابستہ ڈونلڈ کیمپ نے کہا، ''میرا اندازہ ہے کہ وہ بات چیت میں انسانی حقوق پر زیادہ توجہ نہیں دیں گے۔‘‘

کیمپ نے کہا کہ مودی کے دورے کو دونوں طرف سے کامیاب قرار دیے جانے کے لیے واشنگٹن کی جانب سے انسانی حقوق کے مسائل کو اٹھانے میں ہچکچاہٹ ہو گی۔

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ وہ بھارتی حکام کے ساتھ انسانی حقوق سے متعلق تحفظات کو باقاعدگی سے اٹھاتا رہتا ہے اور مودی کے خلاف مظاہرے کرنے کے لیے امریکی باشندوں کے آزادی اظہار کے حقوق کا احترام بھی کرتا ہے۔

اس متعلق بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے فوری طور پر روئٹرز کی جانب سے تبصرہ کرنے کی ایک درخواست کا کوئی جواب نہ دیا۔

شہری آزادیوں سے متعلق تشویش

مودی کے 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بھارت عالمی پریس فریڈم انڈکس میں 140 ویں سے اس سال 161 ویں نمبر پر آ گیا ہے، جو کہ اس ملک کی اب تک کی سب سے نچلی درجہ بندی ہے جبکہ بھارت مسلسل پانچ سالوں سے عالمی سطح پر انٹرنیٹ پر پابندیاں لگانے والے ممالک میں بھی سرفہرست ہے۔

ایڈووکیسی گروپوں نے بھی مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے تحت انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

وہ 2019 میں منظور کیے گئے شہریت کے اس قانون کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں، جسے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے مسلم تارکین وطن کو نظر انداز کرنے پر 'بنیادی طور پر امتیازی‘ قرار دیا تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ تبدیلی مذہب کے خلاف قانون سازی بھی کی گئی، جس نے عقیدے کی آزادی کے آئینی طور پر محفوظ حق کو چیلنج کیا۔ دیگر معاملات میں مسلم اکثریتی کشمیر کی خصوصی آئینی حثیت کو منسوخ کرنا، غیر قانونی تعمیرات ہٹانے کے نام پر ملک میں مسلمانوں کی ملکیتی جائیدادوں کو مسمار کرنا اور بی جے پی کی ریاستی حکومت کے تحت کرناٹک میں کلاس رومز میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کرنے کا معاملہ بھی شامل ہے۔

بھارتی حکومت اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس کی پالیسیوں کا مقصد تمام کمیونٹیز کی فلاح و بہبود ہے اور وہ قانون کو یکساں طور پر نافذ کرتی ہے۔ مودی بھارت کے سب سے مقبول رہنما ہیں اور بڑے پیمانے پر توقع کی جاتی ہے کہ وہ اگلے سال کے انتخابات کے بعد بھی اپنے موجودہ عہدے پر رہیں گے۔

مودی کے امریکہ داخلے پر پابندی

سابق صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے 1998 کے امریکی قانون کے تحت 2005 میں مودی کو ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا، اس قانون کے تحت امریکہ میں ان غیر ملکیوں کے داخلے پر پابندی ہے، جو 'خاص طور پر مذہبی آزادی کی شدید خلاف ورزیوں‘ میں ملوث ہوں۔

2002 میں مودی کے بطور وزیر اعلیٰ گجرات دور حکومت میں اس ریاست میں فرقہ وارانہ فسادات میں کم از کم ایک ہزار افراد، جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے، مارے گئے تھے۔

مودی اپنے کسی بھی طرح کے غلط کام میں ملوث ہونے کی تردید کرتے ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے کی گئی تحقیقات میں بھی ان کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے کوئی ثبوت نہیں ملے۔ بعد میں، جب مودی وزیراعظم بنے، تو ان کے امریکہ میں داخلے پر عائد پابندی ہٹا دی گئی تھی۔

چین کے مقابلے پر بھارت، امریکہ دفاعی تعلقات میں اضافے پر زور

خاموش تشویش

بائیڈن انتظامیہ میں وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور محکمہ خارجہ سمیت واشنگٹن حکومت کی جانب سے بھارت میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی سے متعلق اپنی 2023 کی رپورٹوں میں نسبتاﹰ 'خاموش تشویش‘ کا اظہار کیا ہے۔ واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے جنوبی ایشیا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کہا، ''چین کا عنصر یقیناً ایک اہم وجہ ہے کہ امریکہ بھارت میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے مسائل سے کنارہ کشی کرتا ہے، لیکن یہ اس سے بھی آگے کی بات ہے۔ امریکہ ہندوستان کو ایک اہم طویل المدتی شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔‘‘

ش ر ⁄ م م (روئٹرز)