مولانا عبدالعزیز سے مبینہ بدسلوکی، پاکستانی طالبان کی دھمکی

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 22 جون 2023 20:20

مولانا عبدالعزیز سے مبینہ بدسلوکی، پاکستانی طالبان کی دھمکی

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جون 2023ء) اسلام آباد کی لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز ایک بار پھر میڈیا پر خبروں میں ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں پولیس نے ان کے خلاف انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت ایک مقدمہ درج کیا ہے جبکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے دھمکی دی ہے کہ اگر مولانا عبدالعزیز کے ساتھ بدسلوکی ختم نہ کی گئی، تو اس پر ردعمل سامنے آئے گا۔

لال مسجد کے مولانا پھرسرگرم

کالعدم جماعت الاحرار، جو اب ٹی ٹی پی کا حصہ ہے، نے بھی اس طرح کی کارروائیوں پر حکومت کو خبردار کیا ہے۔ کل بدھ اکیس جون کے روز لال مسجد کے واٹس ایپ گروپوں میں یہ خبر شیئر کی گئی تھی کہ پولیس نے مولانا عبدالعزیز کو لال مسجد سے نکلتے ہوئے گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی۔

(جاری ہے)

کچھ ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ اس دوران مولانا عبدالعزیز سے بدسلوکی بھی کی گئی اور وہ معمولی زخمی بھی ہو گئے تھے۔

دھمکی ’خطرناک‘ ہے

پاکستان اور افغانستان میں شدت پسندی پر نظر رکھنے والے غیر سرکاری ادارے خراسان ڈائری کے ڈائریکٹر نیوز احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا ہے کہ اس طرح کی دھمکیوں کو حکومت کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مولانا عبدالعزیز ٹی پی پی، القاعدہ بر صغیر، لشکر جھنگوی اور دوسرے جہادی حلقوں میں عزت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔

ٹی ٹی پی کی شدت پسندانہ کارروائیوں میں بھی لال مسجد کے آپریشن کے بعد بہت زیادہ تیزی آ گئی تھی اور ماضی میں فاٹا کہلانے والے پاکستانی قبائلی علاقوں میں بھی لال مسجد کے نام سے کئی مساجد بنائی گئی تھیں۔ تو، مولانا عبدالعزیز اور ٹی ٹی پی کا تعلق بہت قریبی نوعیت کا ہے۔‘‘

مساجد و مدارس کے حوالے سے بل: مذہبی تنظیموں کی تنقید

احسان اللہ ٹیپو محسود کے مطابق حال ہی میں ٹی ٹی پی نے اپنا جو 'شیڈو گورنر‘ پنجاب کے لیے مقرر کیا، وہ بھی ماضی میں لال مسجد سے وابستہ رہا ہے۔

''تو تمام سنی جہادی تنظیموں کے لیے مولانا عبدالعزیز، جامعہ حفصہ اور لال مسجد ایک طریقے سے نام نہاد ریڈ لائن ہی ہیں۔ لہٰذا یہ دھمکی انتہائی خطرناک ہے۔‘‘

لال مسجد ایک ’بڑا سکیورٹی رسک‘

اسلام آباد میں مقیم تجزبہ نگار سلمان مسعود کی پاکستانی انتہا پسند تنظیموں پر گہری نظر ہے۔ ان کے خیال میں ٹی ٹی پی قومی سطح پر بڑے حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

سلمان مسعود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''لال مسجد ماضی میں شدت پسندوں کا مرکز رہی ہے اور آج بھی اسلام آباد کی سلامتی کے لیے وہ ایک بڑا سکیورٹی رسک ہے۔ حکام کی طرف سے اس سکیورٹی رسک کو ختم نہ کرنا باعث تشویش ہے۔‘‘

سلمان مسعود کے مطابق افغانستان میں افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ٹی ٹی پی کو ایک بار پھر طاقت مل رہی ہے۔

انہوں نے بتایا، ''سرحدی علاقوں میں ٹی ٹی پی دوبارہ اپنی گروہ بندی کر رہی ہے اور وہ ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی لوگوں کو بھرتی کر رہی ہے۔‘‘

عورت مارچ کے خلاف جامعہ حفصہ کا مورچہ

تجزیہ نگار ڈاکٹر سید عالم محسود کے مطابق ٹی ٹی پی مولانا عبدالعزیز کو اپنا پیشوا مانتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ان سب گروپوں کے آپس میں تعلقات ہوتے ہیں۔

سارے انتہا پسند اندر سے ایک ہی ہیں۔ بد قسمتی سے یہ سارے دہشت گرد گروہ ریاست کی پراکسی طاقتیں ہیں۔ اسی لیے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔‘‘

محض پروپیگنڈا

تاہم پاکستان اور افغانستان میں شدت پسند تنظیموں پر نظر رکھنے والے ایک اور تجزیہ نگار سمیع یوسفزئی کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کی پوزیشن 2007 والی نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ٹی ٹی پی حکومت کی کمزوری کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور لال مسجد میں حالیہ دنوں میں ہونے والے واقعات کو بھی وہ اسی طرح اچھالنے کی کوشش کر رہی ہے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹی ٹی پی اب اتنی مضبوط نہیں، جتنی وہ دو ہزار سات میں تھی۔‘‘

ٹی ٹی پی کے حوالے سے اہم سوالات

پشاور سے تعلق رکھنے والی سابق رکن قومی اسمبلی بشریٰ گوہر کا کہنا ہے کہ اس طرح کی دھمکیاں باعث تشویش ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ سوال اٹھایا جانا چاہیے کہ کون لوگ ان کو دوبارہ خیبر پختونخوا میں لے کر آئے، تاکہ ایک نئی پراکسی وار شروع کی جا سکے۔

جنرل باجوہ اور جنرل فیض کے خلاف کیا ایکشن ہوا؟ کیا حکومت کے پاس اتنی سیاسی قوت ہے کہ وہ دہشت گردوں کی فنڈنگ اورعسکریت پسندی کی فیکٹریاں بند کر سکے۔‘‘

سیاسی جماعت کے خلاف کریک ڈاون لیکن انتہا پسند آزاد

ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستانی انتہا پسند ایک ایسے وقت پر اسلام آباد کے وسط میں بیٹھ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جب ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے اور اس پارٹی کے ہزاروں کارکنوں اور رہنماؤں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی طرف سے یہ الزام بھی لگایا جا رہا ہے کہ اس کے رہنماؤں کو زبردستی اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے پر بھی مجبور کیا جا رہا ہے۔

کئی ناقدین کی رائے میں سیاسی جماعتوں کو 'کھڈے لگانے‘ کی پالیسی نے انتہاپسندوں کے لیے جگہ پیدا کی ہے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرمین اسد بٹ کا خیال ہے کہ اگر تحریک انصاف سمیت کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی لگائی جاتی ہے، تو اس سے ملک میں انتہا پسند تنظیموں کے لیے راستہ مزید ہموار ہو جائے گا۔

غازی عبدالرشید کے بیٹے اسلحے اور فوجی وردی کے ساتھ گرفتار

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''آج ہم اس صورت حال سے اس لیے گزر رہے ہیں کیونکہ اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتیں دونوں انتہا پسند تنظیموں کو خوش کرنا چاہتی ہیں۔ ایک طرف مولانا عبدالعزیز اسلام آباد میں دندناتے پھرتے ہیں تو دوسری طرف رانا ثنااللہ تحریک لبیک کے انتہا پسندوں سے مذاکرات کر رہے ہیں۔‘‘

اسد بٹ کے مطابق کوئی سیاسی جماعت کتنی ہی نااہل کیوں نہ ہو، وہ اس پر پابندی لگانے کی حمایت نہیں کریں گے۔ ''پی ٹی آئی سمیت کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی نہیں لگنا چاہیے بلکہ کارروائی تو ان انتہا پسندوں کے خلاف ہونا چاہیے، جو ریاستی طاقت اور اختیارات کو چیلنج کرتے ہیں۔‘‘