سپریم کورٹ ، تاحیات نا اہلی سے متعلق درخواستوں پرفیصلہ محفوظ

جمعہ 5 جنوری 2024 19:15

سپریم کورٹ ، تاحیات نا اہلی سے متعلق درخواستوں پرفیصلہ محفوظ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 جنوری2024ء) سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سیّد منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی پر شامل عدالت عظمی کے سات رکنی لارجر بنچ نے جمعہ کو تاحیات نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نااہلی سے متعلق انفرادی مقدمات آئندہ ہفتے سنیں جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت قانونی اور آئینی معاملہ کو دیکھ رہے ہیں۔ سماعت کے آغاز پر جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کیا۔ ۔ مخدوم علی خان ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ کے سامنے بنیادی معاملہ اسی عدالت کا سمیع اللہ بلوچ کیس ہے۔

(جاری ہے)

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی سمیع اللہ بلوچ کیس میں سوال اٹھایا ہے۔ اس موقع پر جسٹس سیّد منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ کے مطابق نااہلی کا ڈیکلریشن سول کورٹ سے آئے گا؟ جس پر مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ڈیکلیریشن سول کورٹ سے آئے گا۔ سول کورٹ کے فیصلہ پر کسی کا کوئی بنیادی آئینی حق تا عمر ختم نہیں ہوتا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں خود کو آئین کی شق تک محدود نہیں کرنا چاہئے۔

پورے آئین کو دیکھنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بنیادی آئینی حقوق اور آئینی تاریخ کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ شفاف ٹرائل اور بنیادی تعلیم بھی آئین کا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں پاکستان کی تاریخ کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ جہانگیر ترین کے وکیل مخدوم علی خان نےموقف اختیار کیا کہ 1985 میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کو آئین کا حصہ بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 62 کو آرٹیکل 63 کے بغیر نہیں دیکھا جا سکتا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا سول کورٹ نااہلی کا ڈیکلیریشن دے سکتا ہے؟ وکیل مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ سول کورٹ ایسا ڈیکلیریشن نہیں دے سکتی۔ انہوں نے کہا کہ کون سا سول کورٹ ہے جو کسی کے واجبات بقایا ہونے پر کہہ دے یہ صادق و امین نہیں ہے۔ جسٹس سیّد منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا قانون سازی سے ڈیکلیریشن پر نااہلی کی مدت کا تعین کیا جا سکتا ہے؟ جہانگیر ترین کے وکیل نے جواب دیا کہ آئین میں کورٹ آف لاء کی بات ہے۔

جس میں سول اور کریمنل دونوں عدالتیں شامل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ روز جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کو الگ الگ کرنے کی وجہ کیا تھی۔ انہوں نے کہا ان آرٹیکلز کو اہلیت اور نااہلی کے حوالہ سے علیحدہ رکھا گیا ہے۔ جسٹس سیّد منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ میں 18ویں ترمیم کے بعد آئین کو دیکھ رہا ہوں۔

الفاظ سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن میرا یہ اختیار نہیں ہے کہ آئین کے ہر لفظ کو نظر انداز کروں۔ انہوں نے کہا کہ آئین کا ہر لفظ اہم ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ کے ذریعے تشریح کی ۔ وکیل مخدوم علی خان نے موقف اپنایا کہ الیکشن میں کرپٹ پریکٹسز کی سزا دو سال ہے۔ اس موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر کوئی فراڈ کرتا ہے تو اس کا مخالف ایف آئی آر درج کراتا ہے۔

کیا سزا تاحیات ہوتی ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ آئین وکلاء کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ پاکستان کے عوام کیلئے ہے،آئین کو آسان کریں۔ ۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لوگوں کو طے کرنے دیں کون سچا ہے کون ایماندار ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایک مخصوص کیس کے باعث حلقہ کے عوام اپنے نمائندہ سے کیوں محروم ہوں۔ جسٹس سیّد منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا عدالت یہ کہہ سکتی ہے کہ پارلیمنٹ شق 232 تین کو اس طرح طے کرے کہ سول کورٹ سے ڈگری ہوئی تو سزا 5 سال ہو گی؟ مخدوم علی خان ایڈووکیٹ نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ 185 کے تحت اپیلیں سن رہا ہے۔

شق 232 تین کو اگلی پارلیمنٹ ختم کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ عدالت نے طے کرنا ہے کہ سمیع اللہ بلوچ کیس درست تھا یا نہیں۔ اگر سمیع اللہ بلوچ کیس کالعدم قرار دیا گیا تو قانون کا اطلاق ہو گا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ ہم سیکشن 232 دو کو کیسے کالعدم قرار دیں؟ وہ تو ہمارے سامنے ہے ہی نہیں۔ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ تاحیات نا اہلی کا اصول عدالتی فیصلے سے طے ہوا۔

وکیل درخواستگزار نے کہا کہ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ جب تک ڈیکلریشن رہے گا نااہلی رہے گی۔ جسٹس امین الدین خان نے استفسار کیا کہ اگر عدالت ڈکلیریشن کی ہی تشریح کر دے تو کیا اس سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ ماضی کا حصہ بنے ہوئے ڈیکلریشن کا عدالت دوبارہ کیسے جائزہ لے سکتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ جو مقدمات قانونی چارہ جوئی کے بعد حتمی ہو چکے ہیں ان کو دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا۔

جسٹس سیّد منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ ڈیکلریشن حتمی ہو چکا ہے تو الیکشن پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ ۔جسٹس سیّد منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ اگر سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو کالعدم قرار دیں تو سزا کتنی ہو گی؟ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پارلیمنٹ کہہ چکی ہے کہ نااہلی کی مدت پانچ سال ہو گی۔ جسٹس سیّد منصور علی شاہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالتی معاون کے مطابق سیکشن 232 سے سمیع اللہ بلوچ فیصلہ کو بے اثر کر دیا گیا۔

جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ صرف سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو دیکھے سیکشن 232 چیلنج ہی نہیں ہے۔ مخدوم علی خان نے دلائل میں کہا کہ امریکا میں قانون کالعدم ہو تو کانگریس نیا قانون بنا لیتی ہے۔ امریکی کانگریس اپنی عدالت کو قائل کرتی ہے کہ فیصلے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ چاہتے ہیں عدالت تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس لے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ واپس ہونے تک مدت کم نہیں ہو سکتی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ قانون سازی کے ذریعے ڈیکلریشن کی مدت پانچ سال کی گئی ہے۔ جس پر درخواستگزار کے وکیل نے کہا کہ نااہلی کی مدت مناسب وقت کیلئے ہونی چاہئے تا حیات نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی قانون کو چیلنج کرے پھر عدالت دیکھے گی۔ مخدوم علی خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو ختم کریں کیوں کہ اس سے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔

جسٹس سیّد منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا آئینی شق کو عام قانون سے ریگولیٹ کیا جا سکتا ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس میں یہ اصول طے کر چکے ہیں کہ قانون سے ریگولیٹ ہو سکتا ہے ۔بعد ازاں درخواستگزار کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے جمعہ کی نماز کا وقفہ کر دیا ۔وقفہ کے بعد جب دوبارہ کیس کی سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اسحاق خاکوانی کیس میں آصف سعید کھوسہ کا نوٹ پڑھیں۔ جواد ایس خواجہ نے فیصلہ دیا کہ کورٹ آف لاء کا تعین بعد میں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت بھی کورٹ آف لاء ہو سکتی ہے جس کی آئین کے تحت تشکیل ہوئی ہے۔ دوران سماعت اس موقع پر جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اخلاقی طرز پر کون کون سے جرائم آتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس میں اخلاقی جرائم پر بات کی گئی ہے اور اس کیس میں تاحیات نااہلی کا اصول غلط طے کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ 1995 میں سپریم کورٹ صابر شاہ کیس میں اصول طے کر چکی ہے کہ آئین کا آرٹیکل 62 انتخابات سے قبل جبکہ آرٹیکل 63 انتخابات کے بعد سے متعلق ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ سمیع اللہ بلوچ کیس 5 رکنی بینچ کا فیصلہ تھا تو اسحاق خاکوانی فیصلے پر انحصار کیوں نہیں کیا گیا؟ انہوں نے سوال کیا کہ سات رکنی بینچ کے فیصلے کا احترام کیوں نہیں کیا گیا؟ 7 رکنی بنچ کے فیصلہ کو پانچ رکنی بینچ نے کیوں فالو نہیں کیا؟ چیف جسٹس نے کہا کہ پھر ہم 7 رکنی بینچ کو کیوں نہ مانیں۔

جسٹس سیّد منصور علی شاہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہم بنیادی سوال پر پھنسے ہوئے ہیں کہ کون سا کورٹ آف لاء ڈیکلیریشن دے گا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت یہ طے کرے کہ ڈیکلیریشن کا طریقہ کار کیا ہو گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ریمارکس دیئے کہ ہم 7 رکنی بینچ اتنے دنوں سے سوچ رہے ہیں کہ کیسے معاملہ کو آگے لے کر جائیں۔ ریٹرننگ افسر اس معاملہ کو کیسے حل کرے گا؟ آصف سعید کھوسہ نے سات رکنی بینچ سے مختلف رائے کیوں دی؟ انہوں نے کہا کہ کسی رکن کی اہلیت کیسی ہے یہ تعین ووٹر کو کرنے دیں۔

جسٹس سیّد منصور علی شاہ نے کہا کہ کورٹ آف لاء ڈیکلیریشن دینے کے لئے کیا طریقہ کار اپنائے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ پارلیمنٹ طے کر دے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ دھوکا دہی میں ڈیکلیریشن کا تعین ایک سال ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اسحاق خاکوانی کیس کی طرف کیوں نہ جائیں؟۔ انہوں نے مزید کہا کہ فرض کریں کہ میں یہ فیصلہ دے دوں کہ ذہین شخص ہی رکن پارلیمنٹ ہو سکتا ہے لیکن کون ذہین ہے یہ کون طے کرے گا؟ عدالت کو فلسفے کی طرف نہیں جانا چاہئے۔

جو آج اچھا ہے ہو سکتا ہے وہ کل اچھا نہ رہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فوجداری عدالت اور دیوانی عدالت دونوں کورٹ آف لاء ہو سکتی ہیں۔ اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ مبشر حسن کیس میں 17 رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کو اکیلے نہیں پڑھا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تمام ججز بھی بیٹھیں تو پھر بھی 17 پورے نہیں ہوتے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ڈیکلریشن کی حد تک کا معاملہ پارلیمان کو بھیجا جانا چاہئے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سمیع اللہ بلوچ فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔ پارلیمنٹ نے صرف مدت کا تعین کیا۔ انہوں نے کہا کہ آنے والی پارلیمنٹ باقی طے کر لے گی۔ اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی میعاد سے متعلق کیس میں اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس کیس کامختصر حکم آج نہیں سنائیں گے۔ کوشش ہے کہ کیس کا مختصر فیصلہ جلد سے جلد سنائیں۔