مشرف کی سزائے موت برقرار رکھنے کا فیصلہ برقرار: طاقتور حلقوں کے رد عمل کا امکان؟

DW ڈی ڈبلیو بدھ 10 جنوری 2024 20:20

مشرف کی سزائے موت برقرار رکھنے کا فیصلہ برقرار: طاقتور حلقوں کے رد عمل ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 جنوری 2024ء) سپریم کورٹ کی اس چار رکنی بینچ کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائزعیسی کر رہے تھے جبکہ جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بینچ کے اراکین تھے۔

مقدمے کا پس منظر

واضح رہے کہ یہ فیصلہ ان متفرق اپیلوں کے حوالے سے دیا گیا جو 2020 ء میں لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے متعلق تھیں۔

لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں سابق آمر کو دی جانے والی سزا کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ 12 اکتوبر 1999 ء کو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کا تختہ الٹنے والے پرویز مشرفکے خلاف ایک اسپیشل کورٹ قائم کیا گیا تھا جس نے دسمبر 2019 ء میں سابق آرمی چیف کو غداری کا مرتکب قرار دیتے ہوئے آئین کی آرٹیکل چھ کے مطابق سزائے موت دی تھی۔

(جاری ہے)

پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا تھا کہ ایک سپہ سالار کو اس طرح غداری کا مرتکب قرار دے کر سزائے موت کا فیصلہ دیا گیا ہو۔

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون الرشید، معروف وکیل حامد خان اور ممتاز قانون دان رشید اے رضوی کے علاوہ کئی لوگوں نے لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔

فیصلے کا خیر مقدم

اس فیصلے کا ملک کے طول و عرض میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔ پاکستان بار کونسل نے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ اس فیصلے سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ پاکستان کی عدلیہ آزاد ہے۔

''پوری وکلا برادری اس تاریخی فیصلے کا خیر مقدم کرتی ہے اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ آرٹیکل چھ کے تحت ان لوگوں کے خلاف بھی کارروائی کرے، جنہوں نے آرٹیکل پانچ کی خلاف ورزی کی تھی۔‘‘ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ فوج کا ادارہ پاکستان کے لوگوں کو عزیز ہے۔ '' کیونکہ وہ مادر وطن کے محافظ ہیں اور اسی لیے انہیں وہ ہی فرائض انجام دینے چاہیے، جو آئین انہیں ادا کرنے کو کہتا ہے اور انہیں اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے۔

‘‘

سیاسی مبصرین نے بھی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو سراہا ہے۔ ممتاز صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ صحیح سمت کی جانب ایک صحیح قدم ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''قانون کی حکمرانی کے لیے یہ ایک نئے سفر کی شروعات ہے۔ اگر اس پر جرنیل ناراض ہیں تو انہیں ناراض رہنے دو لیکن یہ فیصلہ وقت کی ضرورت تھا۔‘‘

سیاسی مبصر ابصار عالم کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ان تمام لوگوں کے لیے ایک وارننگ کے طور پہ سامنے آئے گا جو مستقبل میں کسی بھی طرح کا ایڈونچر کرنے کی کوشش کریں گے۔

لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی نائب صدر ربیعہ باجوہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق دیا ہے اور اس کی بھرپور حمایت کی جانی چاہیے۔

فیصلے پر خدشات

پاکستان میں ایک طویل عرصے تک فوج کی حمایت کرنے والے حلقوں کی یہ حجت رہی ہے کہ اگر ایک سابق آرمی چیف کو غداری کا مرتکب قرار دیا جاتا ہے تو اس سے فوج کے مورال پر اثر پڑے گا۔

ماضی میں مشرف کے خلاف قانونی چارہ جوئی نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی حکومت اور جی ایچ کیو کے درمیان کشیدگی پیدا کردی تھی۔ کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ موجودہ فیصلہ بھی سپریم کورٹ اور جی ایچ کیو کے درمیان کشیدگی کا باعث بن سکتا ہے۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ نعیم خالد لودھی کا کہنا ہے کہ طاقتور حلقوں کی طرف سے اس فیصلے پہ سخت ناراضگی ظاہر کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یقینا اس فیصلے کو پسند نہیں کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے یہ ایک علامتی پیغام ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دوسری طرف سے اس علامتی پیغام کا کیا جواب آتا ہے، جو شاید فوری طور پر نہیں آئے۔‘‘

نعیم خالد لودھی نے خدشہ ظاہر کیا کہ اس کشیدگی کی وجہ سے ممکنہ طور پر الیکشن بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔

'' کشیدگی بڑھنے کی صورت میں یہ ممکن ہے کہ الیکشن کو ملتوی کر دیا جائے یا منسوخ کر دیا جائے کیونکہ سپریم کورٹ نے نہ صرف مشرف کے خلاف یہ فیصلہ دیا ہے بلکہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے کیس کے حوالے سے بھی فیصلہ کرنے جا رہی ہے۔ اگر وہ فیصلہ بھی اس طرح آتا ہے جس میں صرف ایک ہی فریق کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے تو کشیدگی میں یقینا اضافہ ہو سکتا ہے۔

‘‘

ڈرنا نہیں چاہیے

ربیعہ باجوہ کا کہنا ہے کہ عوام کو کسی بھی طرح کے ایڈونچر سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ انہوں نے کہا، ''بلکہ ہم تو سپریم کورٹ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کو بھی قانون کے دائرے میں لے کر آئے جو مشرف کے ساتھ اس میں ملوث تھے۔ اس کے علاوہ موجودہ دور میں جو لوگ سیاسی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں ان کو بھی سزائیں دی جائیں۔

‘‘

حامد میر کے خیال میں جی ایچ کیو کی طرف سے کسی بھی طرح کے ایڈونچر کو کوئی حمایت نہیں ملے گی۔ ''اگر جی ایچ کیو کوئی ایڈونچر کرتا بھی ہے، تو اس کو کسی بھی عدالت سے رعایت نہیں ملے گی کیونکہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد عدالتیں کسی بھی غیر آئینی ایکشن کی توثیق نہیں کر سکتیں۔‘‘

ابصار عالم بھی کسی ایڈونچر کے امکان کو مسترد کرتے ہیں۔

ان کے بقول، ''میرے خیال میں سپریم کورٹ کی طرح جی ایچ کیو بھی اس بات کو محسوس کرتے ہوئے دکھائی دیتا ہے کہ سیاست اور پارلیمانی امور میں مداخلت ماضی کی طرح ہمیشہ جاری نہیں رکھی جا سکتی اور یہ کہ ماضی کی غلطیوں کو صحیح کرنے کے لیے کچھ اصلاحی اقدامات ضروری ہیں اور ان اقدامات میں شاید پہلا قدم یہ ہو کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو تسلیم کیا جائے اور آگے بڑھا جائے۔‘‘