ملک میں عام انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوئے ہیں، انتخابی عمل میں تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دی گئی، انتخابی نتائج کے اعلان میں تاخیر کا مطلب دھاندلی نہیں ہوتا، نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی پریس کانفرنس

پیر 12 فروری 2024 22:41

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 فروری2024ء) نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ ملک میں عام انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوئے ہیں، انتخابی عمل میں تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دی گئی ، انتخابی نتائج کے اعلان میں تاخیر کا مطلب دھاندلی نہیں ہوتا، پاکستان کو دہشت گردی کے چیلنجز درپیش ہیں، موبائل فون سروس عوام کے تحفظ کیلئے بند کی گئی، انتخابات کے انعقاد میں سکیورٹی اداروں نے اہم کردار ادا کیا، دہشت گردی کے خطرات کے باوجود پرامن انتخابات کا انعقاد ہوا، پرامن احتجاج سیاسی کارکنوں کا حق ہے لیکن کسی کو انارکی پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے، الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کا فیصلہ آئندہ پارلیمان کرے گی۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

نگران وزیراعظم نے کہا کہ انتخابات کے انعقاد میں سکیورٹی اداروں نے اہم کردار ادا کیا، دہشت گردی کے خطرات کے باوجود پرامن انتخابات کا انعقاد ہوا، انتخابات کے دوران بین الاقوامی مبصرین موجود رہے۔ انہوں نے کہا کہ انتخابی نتائج پولنگ کا عمل ختم ہونے کے بعد 36 گھنٹے میں مرتب ہوئے جبکہ 2018ء میں یہ عمل 66 گھنٹے میں مکمل کیا گیا تھا، 92 ہزار پولنگ سٹیشنز کو محفوظ بنانے کیلئے جامع انتظامات کئے گئے تھے، سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر انتخابی نتائج کے حوالے سے بڑھا چڑھا کرتجزیے پیش کئے گئے، الیکشن کمیشن کی جو ذمہ داری تھی وہ اس نے پوری کر دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قیاس آرائیاں کسی بھی معاملہ پر کی جا سکتی ہیں، سکیورٹی معاملات سے آگاہی رکھنے والے افراد موبائل سمز کے آئی ای ڈیز کیلئے استعمال کئے جانے کے بارے میں جانتے ہیں۔ پشین اور قلعہ سیف اﷲ میں یہ طریقہ کار اختیار کیا گیا، یہ اطلاعات تھیں کہ غیر ریاستی عناصر اور دہشت گرد ملک بھر میں پورے انتخابی عمل کو سبوتاژ کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، پھر حکومت کے پاس کیا راستہ رہ جاتا تھا، کیا اسے اپنے عوام کی حفاظت کیلئے اقدامات نہیں کرنے چاہئے تھے۔

ہم نے الزامات کی پرواہ نہیں کی اور اپنے عوام کی حفاظت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا کیونکہ عوام کا تحفظ ہماری پہلی ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ موبائل فون سروس کی بندش کے باوجود براڈ بینڈ انٹرنیٹ سروس کی سہولت پورے ملک میں دستیاب تھی، موبائل فون سروس تو محرم الحرام کے دوران بند کی جاتی ہے، 8 فروری کو کوئی نئی بات نہیں ہوئی، ایسا تو اس سے پہلے بھی یہاں ہوتا رہا ہے، انتخابی نتائج کے اعلان میں تاخیر کا مطلب دھاندلی نہیں ہے، انتخابی نتائج میں تاخیر تو ہم برداشت کر سکتے ہیں لیکن دہشت گردی نہیں، ملک بھر میں 92 ہزار سے زائد پولنگ سٹیشنز بنائے گئے تھے جنہیں آر او آفس اور الیکشن کمیشن کے دفاتر سے منسلک کیا گیا تھا، اس تمام عمل کیلئے کچھ وقت تو درکار تھا، ہر الیکشن کے بعد باتیں کی جاتی ہیں، 35 پنکچرز اور بعد میں اسے ایک سیاسی بیان کس نے قرار دیا تھا؟ تب ایک عدالتی کمیشن بھی بنا تھا پھر اس کا کیا ہوا تھا؟ انہوں نے کہا کہ برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین ہمارے دوست ممالک ہیں لیکن بدقسمتی سے ان کا ابتدائی تجزیہ سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر دی جانے والی معلومات پر مبنی ہوتا ہے، ذمہ دار حکومتیں انتظار کے بعد اپنا مؤقف اختیار کریں تو یہ بہتر ہوتا ہے، اگر ہمیں تحقیقات کرانا ہوں گی تو ہم ایسا امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے مطالبہ پر نہیں کریں گے بلکہ اپنے طریقہ کار کے مطابق کریں گے کیونکہ ہم ایک خودمختار ملک ہیں، ایسے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے ہمارے اپنے قوانین موجود ہیں، ایسے چیلنجز تو کیپٹل ہل میں بھی موجود تھے، کیا ہم نے کہا کہ امریکہ عدالتی کمیشن بنائے کہ امریکہ کا آئندہ صدر کون ہو گا۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ الیکشن کے دوسرے دن 9 فروری کو ایک آپریشن میں پاکستان میں دہشت گردی کا ماسٹر مائنڈ اور انتہائی مطلوب دہشت گرد ضلع قلعہ سیف اﷲ میں مارا گیا، سکیورٹی فورسز ایک طرف عوام کی جان و مال کو یقینی بنا رہی ہیں تو دوسری طرف ملک اور عوام کیلئے ناپاک عزائم رکھنے والے شرپسند عناصر کا بھی خاتمہ کر رہی ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کا فیصلہ آئندہ پارلیمان کرے گی۔ وزیراعظم نے کہا کہ انتخابی عمل کو زیادہ سے زیادہ شفاف بنانے کیلئے مکالمے کی ضرورت ہے تاکہ انتخابی عمل میں کسی کی مداخلت کے الزامات نہ لگائے جا سکیں، میڈیا اور سول سوسائٹی سے مثبت تجاویز لی جا سکتی ہیںِ لیکن فیصلہ سازی کی جگہ پارلیمان ہے، نئی پارلیمان وجود میں آ رہی ہے، اس میں تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے، وہ اس پر غوروفکر اور قانون سازی کر سکتی ہیں، ملک میں انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوئے، اگر بے ضابطگیوں کے حوالے سے کچھ شکایات یا مسائل ہیں تو ان کے ازالے کا طریقہ کار بھی موجود ہے اور یہ طریقہ کار ایکٹ آف پارلیمنٹ کا حصہ ہے، میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کو مالی اور انتظامی طور پر مزید مضبوط بنانا چاہئے۔

ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ نئی پارلیمنٹ آئندہ وزیراعظم کا انتخاب کرے گی، نئی منتخب پارلیمنٹ انتخابی عمل کو مزید بہتر بنانے میں کردار ادا کر سکتی ہے، آئندہ حکومت کیلئے سنجیدہ اقتصادی چیلنجز موجود ہیں، وہ ان چیلنجز پر قابو پانے کیلئے اقدامات کرے گی، اقتصادی استحکام اور قانون سازی کیلئے سیاسی اختلافات پر قابو پانے کی ضرورت ہے، اس کیلئے سیاسی مکالمے کی بھی ضرورت ہے، آئی ایم ایف پروگرام پر بھی بات کرنا ہو گی، انتخابات اب ہو گئے ہیں، جو جو بھی کسی کے سیاسی یا معاشی اہداف ہیں ان کو سامنے رکھ کر آگے چلیں گے تو سب کے حق میں بہتر ہو گا۔

وزیراعظم نے کہا کہ انتخابی عمل میں نوجوان ووٹرز کی بڑی تعداد کا حصہ لینا ملک کے سیاسی عمل کیلئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام کا فیصلہ منتخب حکومت ہی کرے گی، پی آئی اے کی نجکاری کیلئے مکمل پلان تیار کیا گیا ہے، آئندہ حکومت ہی اس پر عملدرآمد کیلئے کوئی پیشرفت کرے گی۔ ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ سب کو اپنے رویوں پر نظرثانی کی ضرورت ہے، نفرت کو ختم کرکے ایک دوسرے کا احترام کرنا ہو گا، ہمیں اب صحت مند تبدیلی اور صحت مند پاکستان کی طرف قدم بڑھانے چاہئیں۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ دھاندلی کے الزامات لگانا آسان ہیں ،ان کو ثابت کرنا مشکل ہوتا ہے، انتخابی عمل میں تمام سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ دی گئی ، اگر لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں تھی تو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی بڑی تعداد کیسے کامیاب ہوئی ہے، حیرت ہے کہ قومی اسمبلی میں سب بڑا کامیاب گروپ ہونے کے باوجود دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ قومی اسمبلی کے تمام کامیاب ارکان کا تعلق پی ٹی آئی سے ہو پھر اس کیلئے ہم تو کچھ نہیں کر سکتے، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں نے قومی اسمبلی، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں میں کامیابی حاصل کی ہے لیکن انہوں نے بلوچستان اور سندھ میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اس لئے وہاں سے انہیں کوئی نشست نہیں ملی۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ کامیاب امیدواروں کا نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد صدر مملکت قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کریں گے، حلف برداری کے بعد سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور قائد ایوان کا انتخاب کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب انہوں نے وزیراعظم کا منصب سنبھالا تو یہاں پر سیاسی مفرو ضے اور سیاسی تھوریاں پیش کی گئیں کہ انہیں چار، پانچ سال کیلئے لایا گیا ہے لیکن اب کوئی بھی اس پر پیشمانی کا اظہار نہیں کرے گا کہ ہمارے تجزیے اور نام نہاد ذرائع غلط ہو گئے ہیں، یہی وہ المیہ اور مسئلہ ہے جو ہمارا معاشرتی مسئلہ بنتا جا رہا ہے، حقائق سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہئے۔

وزیراعظم نے کہا کہ سابق رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کی صحت یابی کیلئے دعاگو ہوں، کلاشنکوفوں اور جتھہ برداروں کے ساتھ آر او آفس کے سامنے مظاہرے کرنے کے رویہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، پرامن احتجاج ہر کسی کا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ انشاء اﷲ پاکستان جیتے گا، اصولوں کے اندر رہ کر چلیں گے تو سب کو موقع ملے گا، قوم کو انتخابی نتائج قبول ہیں۔