۳ذوالفقاربھٹو کیس کا ٹرائل دوبارہ نہیں کھولا جا سکتا،عدالتی معاونین کے دلائل مکمل ،مزید سماعت آج پھر ہوگی

عدالت میرٹس پر نہیں جاسکتی ہے،جسٹس منصور علی شاہ :صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کے پابند ہیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

پیر 26 فروری 2024 17:40

yJاسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 فروری2024ء) سپریم کورٹ میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوعدالتی معاونین کے دلائل مکمل،عدالت نے کیس کے فوجداری پہلوپردلائل سماعت کرے گی ،چیف جسٹس قاضی فائزعیسیی نے کہاہے کہ منگل کو ہم اس معاملے کے کریمنل پہلو پر سنیں گے، مزیدسماعت آج ساڑھے گیارہ بجے ہوگی ،چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بنیچ مقدمے کی سماعت کی ہے بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ ، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

عدالتی معاون خالد جاوید خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو کیس کا ٹرائل دوبارہ نہیں کھولا جاسکتا ہے، سپریم کورٹ اس حد تک ضرور قرار دے سکتی ہے کہ بھٹو کیس غلط طریقے سے چلایا گیا۔

(جاری ہے)

اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ بھٹو کیس کے میرٹس پر نہیں جاسکتی ہے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ سپریم کورٹ صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کا پابند ہے۔

خالد جاوید خان نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے علاوہ دیگر معاملات پر عدالت رائے دینے کی پابند ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں عدالت بھٹو کیس میں صرف ٹرائل شفاف ہونے کی حد تک دیکھ سکتی ہے۔اس موقع پر عدالتی معاون کا کہنا تھا کہ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ پوری ریاستی مشینری آمر ضیا الحق کے کنٹرول میں تھی۔چیف جسٹس نے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس تاریخ کا وہ واحد فوجداری فیصلہ ہے جو 935 طویل صفحات پر مشتمل ہے،کیا کبھی اس سے بھی طویل فوجداری فیصلہ لکھا گیا ہے تو بتائیں اس پرجسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ اتنے تفصیلی فیصلے سے لگتا ہے جن ججز نے فیصلہ دیا وہ خود بھی متفق نہیں تھے اس لیے اتنی تفصیل لکھی گئی۔

عدالتی معاون خالد جاوید خان نے دلائل جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ لاہور ہائی کورٹ کے جج آفتاب احمد نے کہا تھا ذوالفقار بھٹو اچھے مسلمان نہیں ہیں تو ایک ہائی کورٹ کے جج کو کسی کے اچھے مسلمان ہونے کے بارے میں بات کرنے کی کیا ضرورت تھی اچھا مسلمان نہ ہونے کی بات بھی سپریم کورٹ کے نوٹس میں آئی تھی، سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے جج کی آبزرویشن کی نفی نہیں کی، سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے جج کی بات کو غلط نہیں کہا۔

تب چیف جسٹس پاکستان نے معاون سے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ کے جج نے ایسی بات کی تھی خالد جاوید خان نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ موجود ہے جس میں ہائی کورٹ کے جج کی آبزرویشن کا ذکر ہے۔چیف جسٹس نے مزید دریافت کیا کہ اگر عدالت غلطی کرے تو اسلام کیا کہتا ہی ہمیں سمت کو ٹھیک کرنا چاہیے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر سپریم کورٹ کے ججز آزاد نہیں تھے تو ہمیں وہ مواد دکھا دیں، مارشل لا نافذ تھا صرف یہ کافی نہیں ہے۔

عدالتی معاون نے بتایا کہ ریفرنس میں یہ پوچھا گیا ہے کہ عدالتی فیصلہ درست تھا یا نہیں چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کہاکہ سپریم کورٹ کسی بھی عدالت کے فیصلے کا جائزہ لے سکتی ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ بھٹو کیس میں ٹرائل کی شفافیت دیکھی جا سکتی ہے مگر طریقہ کار کا بتایا جائے،ایک صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ فوجداری کا ٹرائل کیسے دوبارہ کھولے،عدالتی معاون خالد جاوید نے کہاکہ مارشل لا دور میں ججز آزاد نہیں تھے۔

رضا ربانی نے کہا کہ جب جسٹس وحید الدین بیمار ہوئے تو یہ معاملہ عدالت میں رکھا گیا،اس وقت ایک ایڈہاک جج 9ممبر بنچ میں شامل ہوئے،اس کیس میں قیصر خان ایڈہاک جج تھے،عدالتی معاون نے کہاکہ عدلیہ آزاد ہوتی تو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی،بھٹو اپیل پر سپریم کورٹ میں جس عدالتی بنچ نے کیس سنا اس میں ایڈہاک ججز بھی تھے،اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہاکہ بھٹو کیس 9رکنی بنچ نے سنا بعد میں 7رہ گئے، جسٹس امین الدین خان نے کہاکہ نسیم شاہ ایڈہاک جج کے طور پر کیس کیسے سن سکتے تھے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ اگر عدالت غلطی کرے تو اسلام کیا کہتا ہے، ہمیں سمت کو ٹھیک کرنی چاہیے، جسٹس منصور علی شا ہ نے کہاکہ سپریم کورٹ کے ججز آزاد نہیں تھے، ہمیں وہ مواد دکھا دیں، مارشل لائ نافذ تھا، یہ کافی نہیں ہے، عدالتی معاون نے کہاکہ ریفرنس میں یہ پوچھا گیا عدالتی فیصلہ درست تھا یا نہیں، : ملزم کو نوٹس دیے بغیر ہائیکورٹ کو بھٹو ریفرنس منتقل کر دیا گیا، میں نے مختلف ممالک کی مثالیں پیش کی ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ ہمارے ہاں ایسی مثال نہیں ہے، اگر پارلیمنٹ کوئی قانون بنانا چاہے تو بنا سکتا ہے، ہم پارلیمنٹ کو کوئی قانون بنانے کی ہدایت نہیں دے سکتے، عدالتی معاون نے کہاکہ جسٹس اطہر من اللہ کے تحریر کردہ ایک فیصلے میں کہا گیا بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ درست نہیں تھاجسٹس منصور نے کہاکہ یہ تو پھر ڈیکلریشن آگیا ،عدالتی معاون خالد جاوید خان کے دلائل مکمل ہونے پرعدالتی معاون بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل کا آغاز کردیااوربھٹو ریفرنس میں بیرسٹر صلاح الدین کا جسٹس نسیم کی کتاب سے اہم حوالہ،دیاہے اور کہاہے کہ بھٹو کیخلاف فیصلہ دینے کے بعد چیف جسٹس ہائیکورٹ مشتاق اٹارنی جنرل پیرزادہ کو لیکر جسٹس نسیم حسن شاہ سے ملنے آئے، اور کہا فیصلے کیخلاف اپیل والے بنچ میں آپ بیٹھیں، صرف اسی پوائنٹ پر سزائیموت کالعدم ہونی چاہیے تھی۔

چیف جسٹس نے کہاکہ : جب کتاب شائع ہوئی کیا جسٹس مشتاق زندہ تھی بیرسٹرصلاح الدین نے کہاکہ شریف الدین پیرزادہ تو زندہ ہی تھے ،اس ملاقات کے بعد نسیم حسن شاہ پر لاہورہائیکورٹ کے چیف جسٹس کا تعصب منکشف ہو چکا تھا،اس کے باوجود ان کیخلاف تعصب کی درخواست خارج کر دی گئی،عدالتی پہلے فیصلوں کو اکثر بدلتی رہتی ہے، سوال یہ ہے کہ عدالت کیا آرٹیکل3 186 کے دائرہ اختیارمیں یہ کر سکتی ہی بیرسٹرصلاح الدین کا بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ بھارتی سپریم کورٹ نے ٹو جی ریفرنس میں رائے دی، بھارتی سپریم کورٹ نے کہا فیصلے نہیں مگر پرنسپل آف لا کی دوبارہ تعریف ہو سکتی ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ بھارتی فیصلوں پر اتنا انحصار کیوں کر رہے ہیں صلاح الدین نے کہاکہ میں پاکستانی فیصلوں کی طرف بھی آتا ہوں، 2013 میں ججوں کی تعیناتی کیس میں سپریم کورٹ پاکستان کا فیصلہ موجود ہے، جسٹس منصور نے کہاکہ آپ کی نظر میں بھٹو کیس میں قانونی سوال کیا ہی اس پر عدالتی معاون نے کہاکہ سوال یہ ہے کیا ایک جج کے انکشافات کے بعد فیصلہ تعصب زدہ ہے یا نہیں،چیف جسٹس نے کہاکہ آپ تعصب والے معاملے پر ایک پہلو نظر انداز کیوں کر رہے ہیں ہو سکتا ہے سوچا گیا ہو اسے سزا نہ دی تو کل یہ پراسیکیوٹر بن کر ہم پر آرٹیکل 6 نہ لگا دے، یہ چیزیں بھٹو فیصلے میں نہیں مگر تاریخ کا حصہ ہیں، صلاح الدین نے کہاکہ یقینا کچھ چیزیں تاریخ کا حصہ ہیں، مشکل مگر یہ ہے کہ اس دور کے کون سے فیصلے برقرار رکھے جائیں کون سے ختم کیے جائیں، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کی مشکل میں حل کر دیتاہوں کہ ہمارے سامنے ایک ہی ریفرنس ہے، صلاح الدین نے کہاکہ تشویش یہ ہے اس کے بعد اس دور کے مزید کیسز کھولنے کا راستہ نکلے گا، جسٹس منصور نے کہاکہ آپ کاکہنا یہ ہے کہ جج آزاد نہیں تھا اس لیے انصاف کا خون ہوا،عدالتی معاون نے کہاکہ جی ، میرا یہی موقف ہے،جسٹس نسیم حسن شاہ نے کہا ہم سے تو کسی نے نہیں کہا یوں کرو، ساتھ ہی کہا، ہو سکتا ہے وہ چیف جسٹس سے بات کرتے ہوں، پھر کہا، ہو سکتا ہے وہ ہم سے بھی ان ڈائریکٹ کہتے ہوں یوں کر لیں تو بہتر ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ یہ ان ڈائریکٹ کہنا کیا ہوتا ہی چیصلاح الدین نے کہاکہ میں تو ان کی باتیں ہی پوائنٹ آوٹ کر رہا ہوں،بیرسٹر صلاح الدین کا نسیم حسن شاہ کے افتخار احمد کو انٹرویو کا بھی حوالہ دیااور انہوں نے انٹرویو میں مانا چیف جسٹس کو بھٹو سے دشمنی ہو گئی تھی، نسیم حسن شاہ نے کہا سزا کم ہو سکتی تھی مگر بھٹو کے وکیل نے ناراض کر دیا تھا، کیا سزائے موت کے کیس میں جج کو وکیل کے طرز عمل پر سزا سنانی چاہیی چیف جسٹس نے کہاکہ وکیل کے کنڈکٹ کی سزا کلائنٹ کو نہیں دی جا سکتی، اعتزاز احسن بھی بطور معاون عدالت میں پیش ہوئے چیف جسٹس نے پوچھاکہ آپ پہلے کیوں نہیں آ رہے تھی جسٹس یحیٰ آفریدی نے کہاکہ آپ کی جانب سے کسی نے بیان دیا تھا آپ پیش نہیں ہوں گے، چیف جسٹس نے کہاکہ کسی کو اعتراض نہیں تو اعتزاز احسن کو سن لیں گے، عدالتی معاون منظور ملک کو سنیں گے،فاروق ایچ نائیک نے کہاکہ کریمنل پہلو سے پہلے بلاول کی طرف سے مجھے سنا جائے،میں نے بلاول کی جانب سے فریق بننے کی درخواست کی تھی،میرا صدر مملکت سے تعلق نہیں ہے ، مزیدسماعت آج منگل کوبھی جاری رہے گی۔

واضح رہے کہ 20 فروری کو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس کیس میں اصل سوال یہ ہے کہ کیا عدالتی کارروائی میں طریقہ کار درست اپنایا گیا یا نہیں چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہمارا اختیار سماعت بالکل واضح ہے، 2 مرتبہ نظرثانی نہیں ہو سکتی ہے، ہم اس کیس میں لکیر کیسے کھینچ سکتے ہیں انہوں نے دریافت کیا کہ کیا اس کیس میں تعصب کا سوال ہے یا غلط فیصلہ کرنے کو تسلیم کرنا ہی عدالتی معاون نے دلیل دی کہ ایک جج نے انٹرویو میں کہا کہ ان پر دباؤ تھا جس پر قاضی فائز عیسی نے کہا کہ انہوں نے یہ تو نہیں کہا کہ میں تعصب کا شکار تھا، اگر میں دباؤ برداشت نہیں کر سکتا تو مجھے عدالتی بینچ سے الگ ہو جانا چاہیے، ایک شخص کہہ سکتا کہ کوئی تعصب کا شکار ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ دوسرا یہ رائے نہ رکھے۔

مخدوم علی خان نے جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو سے متعلق دلائل دیتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ تعصب کو ثابت کرنا تقریبا ناممکن ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے مزید دریافت کیا کہ کیا ہم اس پہلو کو نظرانداز کر سکتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف کیس جب چلا اس وقت ملک میں مارشل لا تھا اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا اپنا مفاد تھا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے ریفرنس پر سماعت 26 فروری تک ملتوی کر دی تھی۔

یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کیخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا، صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی جو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔تاہم حال ہی میں اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی 12 دسمبر کو 9 رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تھا۔

سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس 5 سوالات پر مبنی ہے، صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گی تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہی جبکہ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھی