سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے اب تک ایم کیو ایم سے کوئی بات نہیں ہوئی ،سعید غنی

فیصل واوڈا کے سینیٹ کے انتخابات میں کاغذات نامزدگی منظور ہونے کا سوال مجھ سے نہیں ایم کیو ایم سے بنتا ہے،وزیر بلدیات سندھ

ہفتہ 16 مارچ 2024 19:10

سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے اب تک ایم کیو ایم سے کوئی بات نہیں ہوئی ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 مارچ2024ء) وزیر بلدیات، ہائوسنگ ٹائون پلاننگ و پبلک ہیلتھ انجینئرنگ سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ کراچی ایک بہت بڑا شہر ہے اور یہ دنیا کہ چند بڑے شہروں میں سے ایک شہر ہے۔ کراچی شہر کے مسائل کے حل کے لئے اگر وفاق اور صوبوں کے تمام وسائل لگا دئیے جائیں پھر بھی 100 فیصد مسائل ختم نہیں ہوسکتے۔ آصف علی زرداری سے بہت سے لوگ ملتے ہیں اگر ان سب کو پیپلز پارٹی کے کھاتے میں ڈال دیا جائے تو یہ مناسب نہیں ہے۔

فیصل واوڈا کے سینیٹ کے انتخابات میں کاغذات نامزدگی منظور ہونے کا سوال مجھ سے نہیں ایم کیو ایم سے بنتا ہے۔ حالیہ سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے اب تک ایم کیو ایم سے کوئی بات نہیں ہوئی ہے لیکن الیکشن سے قبل ہو بھی سکتی ہے کیونکہ بات چیت سیاست کا حسن ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔

سعید غنی نے کہا ہے گڈاپ، ابراہیم حیدری اور کے ایم سے کے مابین ٹول ٹیکس کو لے کر جو معاملہ ہے اس کو دیکھوں گا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ٹائون گوکہ پیپلز پارٹی کے ہیں لیکن یہ حق کے لئے لڑ رہے ہیں۔ دونوں ٹائون لوکل گورنمنٹ کمیشن اور عدلیہ میں بھی گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ضرور اس معاملہ کو دیکھوں گا اور انشا اللہ ہم اس کا حل نکال لیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کراچی ایک بہت بڑا شہر ہے اور یہ دنیا کہ چند بڑے شہروں میں سے ایک شہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی یہ کہے کہ اس شہر کے 100 فیصد مسائل حل ہوجائیں تو ایسا نہ ماضی میں ہوا نہ اس وقت میں اس پوزیشن میں ہوں کہ آپ کو یہ کہہ سکوں کہ کب تک یہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا، البتہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے پچھلے سالوں میں کراچی کے انفراسٹرکچر پر بہت توجہ دی ہے اور ہم نے کراچی پر بہت پیسہ بھی لگایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے بے تماشہ گلیاں، سڑکیں اور دیگر کام کئے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم مکمل مطمئین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب بھی کراچی کے انفراسٹرکچر پر انویسٹمینٹ کی ضرورت ہے۔ سعید غنی نے کہا ہے صرف کراچی کے مسائل کے حل کے مقابلے وسائل کی بات کروں تو پوری وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے سارے وسائل لگائیے جائیں پھر بھی شاید ہمارے مسائل حل نہ ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کے پاس جو محدود وسائل موجود ہیں اس میں راہ کر کوشش کررہے ہیں اس سے آگے بڑھ کر سندھ حکومت نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی بنیاد پر بہت سارے منصوبے کراچی میں شروع کئے۔ انہوں نے کہا کہ یلو لائن، ریڈ لائن، واٹر سیوریج، کلک، سوئپ سمیت کئی منصوبے مختلف ڈونر ایجنسیوں اور انفراسٹرکچر پر انویسٹمینٹ کرنے والوں کے ساتھ مل کر کراچی کے لئے کام کررہی ہیں۔

سعید غنی نے کہا ہے ریڈ لائن پر کام کے جلد شروع ہونے کی وزیر ٹرانسپورٹ شرجیل انعام میمن نے کابینہ کے اجلاس میں یقین دہانی کروائی ہے، کنٹریکٹر کے کچھ اشیوز ہیں ہم اس کو بھی حل کردیں گے۔ فیصل واوڈا کے سینیٹ کے لئے کاغذات جمع کروانے اور ماضی میں صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کے سوال پر سعید غنی نے کہا ہے کہ ملاقات کرنا سے قطعی یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ وہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں یا وہ پیپلز پارٹی کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری سے بہت سے لوگ ملتے ہیں اگر ان سب کو پیپلز پارٹی کے کھاتے میں ڈال دیا جائے تو یہ مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے تو نہیں معلوم کہ فیصل واوڈا کے پرپوزر اور سیکنڈر کون ہیں آپ میڈیا کے دوست جو بتا رہے ہیں تو اس حوالے سے سوال یا تو فیصل واوڈا سے یا ایم کیو ایم سے بنتا ہے کم از کم یہ سوال مجھ سے نہیں بنتا۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے انتخابات میں ایک ووٹ کی جو غلطی ہوئی تھی وہ ہمارے ممبر سے ہوئی تھی اور اس نے اس بات سے ہمیں نتائج آنے سے قبل ہی آگاہ کردیا تھا کہ ان سے اس طرح کی غلطی ہوئی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیاست میں بات چیت ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے۔ حالیہ سینیٹ کے انتخابات کے حوالے سے اب تک ایم کیو ایم سے کوئی بات نہیں ہوئی ہے لیکن الیکشن سے قبل ہو بھی سکتی ہے کیونکہ بات چیت سیاست کا حسن ہے۔

ایم کیو ایم کی بلدیاتی نظام میں ترامیم کی شرائط کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے یہ شرائط رکھی تھی مسلم لیگ نون کے سامنے اور معاہدہ بھی ان ہی کے ساتھ کیا ہے۔ اس حوالے سے بنیادی، اخلاقی اور سیاسی ذمہ داری تو پی ایم ایل این کی بنتی ہے کہ وہ اس وعدے کو پورا کرانے کی کوشش کرے۔ البتہ ہم سے وہ بات کریں گے اور کوئی چیز سامنے لائیں گے تو ہم دیکھیں گے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہاں بسیں چلائی جارہی ہیں اور دیگر دو منصوبے یلو اور ریڈ لائن پر بھی کام جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرا ذاتی ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ آپ لوگوں کو سفر کے لئے اچھی بسیں دیں، لیکن اگر آپ کے صوبے اور شہر میں لوگوں کو علاج کی بہتر سہولتیں فراہم کریں تو یہ میٹرو سے زیادہ بہتر ہے اور ہم نے یہ کام صوبہ سندھ میں کیا ہے اور یہ پورا ملک اور دنیا بھی تسلیم کرتی ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ ترجیحات پر ہے کہ کسی کی ترجیع اورنج لائن ہے تو کسی کی ترجیع اسپتال اور علاج معالجہ ہے۔