Live Updates

’حکومت کی سادگی اپناؤ مہم عوام کو دھوکہ دینے کا ایک طریقہ‘

DW ڈی ڈبلیو منگل 19 مارچ 2024 20:20

’حکومت کی سادگی اپناؤ مہم عوام کو دھوکہ دینے کا ایک طریقہ‘

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 مارچ 2024ء) وفاقی حکومت کی طرف سے جاری کردہ احکامات کے مطابق وفاقی وزراء، وزرائے مملکت، مشیر اور ان کے معاونین ایک سال میں بیرونی ممالک کے صرف تین دورے کر سکیں گے لیکن خصوصی حالات میں ان دوروں کی تعداد کو بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس فیصلے کے مطابق سرکاری افسران اپنے بیرونی دوروں کے دوران فائیو اسٹار ہوٹلز میں قیام بھی نہیں کر سکیں گے تاہم وزارت خارجہ اور وزارت تجارت کو ان پابندیوں سے استثنیٰ دیا گیا ہے۔

دوسری جانب معاشی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کی گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنے کے لیے اس طرح کے مصنوعی اقدامات کچھ زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوں گے اور یہ کہ اس کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا پڑیں گے۔

سادگی اپناؤ مہمات ماضی میں بھی چلتی رہی ہیں۔

(جاری ہے)

سابق نگراں وزیر اعظم مرحوم ملک معراج خالد نے بغیر پروٹوکول کے سفر کرنا شروع کیا تھا جبکہ عمران خان کی حکومت نے بھی وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات کم کرنے کا دعوی کیا تھا۔

تاہم ناقدین کے مطابق ان کے دور حکومت میں ریکارڈ سطح پر اندرونی اور بیرونی قرضے لیے گئے۔

مصنوعی اقدامات

معاشی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے مصنوعی اقدامات سے معیشت کو بہتر نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معاشی امور کے ماہر شاہد محمود کا کہنا ہے، ''شہباز شریف اس طرح کی پبلک ریلیشننگ اور ڈرامے ماضی میں بھی کرتے رہے ہیں، جن سے گورننس اور اصلاحات پر کوئی فرق نہیں پڑا۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت کے دوران بھی ایک سادگی اپناؤ کمیٹی بنائی گئی تھی لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔‘‘

شاہد محمود کے مطابق افسر شاہی، فوج اور عدلیہ اتنے طاقتور ہیں کہ وہ اس طرح کے اقدامات کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ شاہد محمود کا کہنا ہے کہ معیشت کی بہتری کے لیے نان فائلرز اور ٹیکس چوروں سے ٹیکس وصول کیا جائے، ''اور کھربوں روپے کا جو ٹیکسوں میں استشنیٰ دیا جاتا ہے، اس کو ختم کیا جائے۔

‘‘

’عوام کو دھوکہ دینے کے مترادف‘

کراچی سے تعلق رکھنے والی ماہر معیشت ڈاکٹر شاہدہ وزارت بھی اس مہم کو ناکافی قرار دیتی ہیں۔ ان کے خیال میں یہ صرف عوام کو دھوکہ دینے کا ایک طریقہ ہے۔ شاہدہ وزارت نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اراکین اسمبلی، چیف ایگزیکٹو آفیسرز، بینکوں اور مالیاتی اداروں کے سربراہ اور کرکٹ کوچز سمیت کئی طرح کے لوگوں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیا گیا ہے۔

‘‘

شاہدہ وزارت کا کہنا ہے کہ اگر حکومت واقعی اخراجات کو کم کرنا چاہتی ہے، تو مفت پٹرول اور بجلی کی بندر بانٹ کو بند کیا جائے، ''ہیلی کاپٹرز اور بلٹ پروف کاروں کے استعمال کو ختم کیا جائے۔ غیر جنگی اور غیر تربیتی دفاعی بجٹ کو کم کیا جائے۔‘‘

خیال کیا جاتا ہے کہ انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز، قرضوں کی ادائیگی اور دفاعی بجٹ ملک کے بڑے اخراجات میں سر فہرست ہیں۔

شاہدہ وزارت کے مطابق ان کمپنیوں سے دوبارہ سے بات چیت کی جائے، ''اور جن کی معاہدوں کی معیاد ختم ہو چکی ہے، ان کے ساتھ نئے معاہدے نہ کیے جائیں۔‘‘

وفاقی حکومت کی طرف سے ایک اور بڑی لاگت ان وزارتوں کے اخراجات ہیں، جن کو اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت پہلے ہی صوبوں کو دیا جا چکا ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت سالانہ تقریبا 328 ارب روپے ان وزارتوں پر خرچ کر رہی ہے۔

حکومتی دعوے اور حقیقت

حکومتی اخراجات میں کمی کے ان دعوؤں کے برعکس حکومت کے قول و فعل میں بھی تضاد بھی نظر آتا ہے۔ وزیراعظم کی اس پالیسی کا اعلان کیے ہوئے ابھی 72 گھنٹے بھی نہیں گزرے ہیں اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار برطانیہ اور بیلجیم کے دورے پہ جا رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان دوروں میں کتنی سادگی اپنائی جاتی ہے؟

پارلیمانی اراکین کی مراعات

نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر محمد اکرم بلوچ کا کہنا ہے کہ ایک سینیٹر کو مختلف کٹوتیوں کے بعد تقریباً ایک لاکھ ستر ہزار کے قریب تنخواہ ملتی ہے جبکہ اس کو ایئر لائن کی ٹکٹ کے حوالے سے واچرز بھی ملتے ہیں، جو سال میں تقریبا اٹھارہ سے انیس بن جاتے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اراکین کو کمیٹی کے اجلاس کے لیے بھی خرچہ ملتا ہے اور اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے کا فی دن آٹھ ہزار آٹھ سو روپے کا وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔‘‘

محمد اکرم کے مطابق اراکین کو بلیو پاسپورٹ جاری کیا جاتا ہے، ''اور بیرونی دوروں کے دوران ادائیگی ڈالرز میں کی جاتی ہے۔ کمیٹیوں کے چیئرمین کو ایک ڈرائیور، باورچی، معاون اور فیول کی مد میں بھی پیسے ملتے ہیں۔

‘‘

ڈی ڈبلیو کی اپنی ریسرچ کے مطابق اگر ایک رکن قومی اسمبلی کی ماہانہ اوسطاً تنخواہ اور مراعات تین لاکھ روپے کی بنتی ہیں، تو چاروں صوبائی اسمبلیوں، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین کی تنخواہیں اور مراعات پانچ برس میں 19 ارب روپے کے قریب بن سکتی ہیں۔

محمد اکرم بلوچ کا کہنا ہے، ''اگر امیر اراکین اسمبلی اپنی تنخواہوں اور مراعات سے مکمل دستبرداری کا عالان کریں، تو اس سے قومی خزانے کو کچھ نہ کچھ فائدہ ہو سکتا ہے۔‘‘

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات