پاکستان کا وسیع علاقہ زبردست خشک سالی اور قحط کی لپیٹ میں ہے

جمعہ 22 مارچ 2024 22:16

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 22 مارچ2024ء) پانی کی صنعت و تجارت اور مارکیٹنگ کا نظام خطرناک ڈگر پر چل نکلاہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں واٹر مارکیٹینگ کو وسعت دینے کیلئے انسانیت سوزعوامل پر اُتر آئیں ہیں۔ ان کا یہ خواب ہے کہ 2030 تک پانی صرف بوتل میں ہی دستیاب ہو گا۔انڈیا کی آبی دہشت گردی سے دریائے ستلج اور اوی کی مکمل بندش اور دریائے چناب ،جہلم اور سندھ میں مجموعی طورپر 80% پانی کی کمی واقع ہوئی ہے۔

پاکستان کا وسیع علاقہ زبردست خشک سالی اور قحط کی لپیٹ میں ہے۔ان خیالات کا اظہار یہاں 22 مارچ پانی کا عالمی دن کے حوالے سے پاکستان نیشنل واٹر کمیشن کے محمد یوسف آفریدی کے زیر اہتمام منعقدہ واٹر کانفرنس سے خطاب کرتے کسان رہنماوں،ماہرین واٹر اور زندگی کے مختلف شعبہ زندگی کے ماہرین نے کیا۔

(جاری ہے)

واٹر کانفرنس میں کسان بورڈ پاکستان کے مرکزی صدر اور زرعی سائنسدان سردار ظفر حسین خاں ،ملک کے نامور واٹر سپورٹس کلب کے مرینہ بوٹ کلب کے چیف ایگزیکٹو ہمایوں اختر، معروف زرعی صحافی اور ریجنل یونین آف جرنلسٹس وسطی پنجاب کے سینئرنائب صدر حاجی محمد رمضان اور دیگر زرعی اور پانی کے ماہرین نے شرکت کی ۔

پاکستان نیشنل واٹر کمیشن کے چیئرمین محمد یوسف سرور فریدی نے پانی کے عالمی دن کے حوالہ سے منعقدہ واٹر کانفرنس سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پانی کی صنعت و تجارت اور مارکیٹنگ کا نظام خطرناک ڈگر پر چل نکلاہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں واٹر مارکیٹینگ کو وسعت دینے کیلئے انسانیت سوزعوامل پر اُتر آئیں ہیں۔ ان کا یہ خواب ہے کہ 2030 تک پانی صرف بوتل میں ہی دستیاب ہو گا۔

غیر معیاری پانی کی فروخت کے ہوش ربا انکشافات سامنے آرہے ہیں۔گلی محلہ کی سطح پر ہی فلٹریشن پلانٹ کی آڑ میں غیر معیاری پانی کی فروخت سے نہ صرف عوام کو لوٹا جارہا ہے بلکہ یہ ادارے اور دکاندار عوام کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ اس گھناونے کاروبار کو بند کیا جائے اور اس کے پیچھے چھپی کالی بھیڑوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے قانونی اصلاحات زندگی اور موت کا مسئلہ ہے ،پینے کا پانی بیچنے والی کمپنیوں سے زیر زمین پانی کا باقائدہ چارج وصول کیئے جائیں اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلہ اور تجویز و آراء کی روشنی میں ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔

پبلک کو بلا معاوضہ پانی کی فراہمی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔جے آئی کسان بورڈ پاکستان کے مرکزی صدر اور زرعی سائنسدان سردار ظفر حسین خاں نے کہا کہ پانی کے بغیر زندگی اور زراعت کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ جہاں پانی نہ رہا وہاں آبادیاں وہ شہر کھنڈرات اور ریت کا ڈھیر بن گئے جب دریائے گھاگرہ بہتا تھا تو چولستان ایک سر سبز اور شاداب علاقہ تھا دریا ختم ہوا تو محل زمین بو س ہو گئے اور اس سر زمین نے ریت کا لبادہ اوڑھ لیا ۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے زراعت کو معاشرتی، سماجی اور معاشی ڈھانچے میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔نلک کی تقریباً70فیصد آبادی 40ہزار دیہات میں آبادہے۔ وطن عزیز کی 67فیصد آبادی براہ راست یا بالواسطہ زراعت سے وابسطہ ہے۔ ملکی مجموعی پیداوار میں اس کا حصہ 26فیصد ہے۔ ملک کی بڑی صنعتوں کیلئے خام مال اس شعبہ سے آتا ہے۔ آئے روز بڑھتی ہوئی۔زرعی صحافی اور ریجنل یونین آف جرنلسٹ صوبہ پنجاب وسطی کے سینئیر نائب صدر حاجی محمد رمضان نے کہا قیام پاکستان کے بعد1952ء میں 5500کیوسک میٹر پانی فی کس مہیا تھا اب 820کیوسک میٹر ہے۔

اور یہ مقدار500کیوسک میٹر تک پہنچ جائے تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا ۔لہذا اگر ہم پانی کو صحیح طریقے سے سٹور نہیں کریں گے اور پانی کے تحفظ کیلئے واٹر مینجمنٹ پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہونگے تو زراعت تو درکنار یہاں پینے کیلئے پانی دستیاب نہیں ہو سکتا۔ملک کے نامور واٹر سپورٹس کلب کے مرینہ بوٹ کلب کے چیف ایگزیکٹو ہمایوں اختر نے کہاں کہ اگر دریاوں کے پانی کو بطور واٹر وے استعمال کیا جائے تو ملک کو کھربوں کی بچت ہو سکتی ہے کیونکہ پانی کے زریعے رسل و رسائیل اور نقل و حرکت انتہائی آسان اور سستی ہے اور ہم چند سالوں میں بیرونی قرضوں سے نہ صرف نجات حاصل کر سکتے ہیں بلکہ واٹر سپورٹس کے فروغ سے سیر و سیاحت کے زریعے وسیع زر مبادلہ کما سکتے ہیں۔

نیشنل واٹر کمیشن کے محمد یوسف آفریدی نے اپنی اختتامی تقریر میں مزید کہا کہ بد قسمتی سے تربیلا ڈیم جس کی تعمیر 1974ء میں ہوئی تھی کے بعد ہم پانی ذخیرہ کرنے کیلئے اقدامات نہ کر سکے۔ مثلا ترکی نے 1987ء تک 65ھائیڈرو پراجیکٹ تعمیر کیئے اس کے بعد 18ڈیمز تعمیر کیئے ہندوستان 62ڈیمز کی تعمیر کے ساتھ 300 پروجیکٹس پر کام کر رہا ہے جس سے ہمارے دریائوں کا پانی روکنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔

جبکہ ہمارے ملک میں پانی کے ذخائر تربیلا اور منگلہ میںپانی سٹور کرنے کی صلاحیت میں 30فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔بدقسمتی سے وطن عزیز میں آئے روز بڑھتے ہوئے آبی بحران اورپانی کی آلودگی لمحہ فکریہ اور حکومتوں کے لیے بڑا چیلنج ہے۔محمد یوسف سرور فریدی نے کہا کہ دریا بہتے تھے تو ان علاقوں کے گردو نواح میں پانی 10 سے 12 فت نیچے مل جاتا تھا۔

اب دریائے ستلج اور اوی کی مکمل بندش اور دریائے چناب ،جہلم اور سندھ میں مجموعی طورپر 80فیصد پانی کی کمی واقع ہوئی ہے۔ لاہور سے قصور ،بھاولنگر،وہاڑی ، بہا ولپور، رحیم یار،راجن پور،ڈیرہ غازی خان سمیت بدین ،میر پور ، گھوٹکی ،سانگھڑ ، لاڑکانہ ، جیکب آباد، سکھر، دادواور خیر پور زبردست خشک سالی اور قحط کی لپیٹ میں ہے ۔اکثر علاقوں کے زیر زمین پانی کی ری چارجنگ نہ ہونے سے پانی زہریلہ اور آلودہ ہو چکا ہے جو پینے کیلئے تو درکنار زراعت کیلئے بھی استعمال کے قابل نہیں رہا۔

آلودہ پانی پینے سے سالانہ8لاکھ افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ آلودہ اورزہریلے پانی سے زرخیز زمین بنجر اور بانجھ ہوتی جارہی ہے۔ جس سے پیدا وار میںریکارڈ کمی واقع ہو رہی ہے۔اٹر مینجمنٹ نہ کی گئی اور واٹر سیکٹر کے پالیسی ساز حکام کا قبلہ درست نہ کیا گیا تو 2030ء تک پاکستان کی تین کروڑ چالیس لاکھ ایکڑ اراضی کھنڈرات میں تبدیل ہو جائے گی ۔

بھارت کے خلاف مورچہ بندی وقت کی اہم ضرورت ہے ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔ اس مسئلہ کے لئے پاکستان نیشنل واٹر کمیشن کی طرف سے جاری کردہ واٹر ری سائیکلنگ سسٹم اتھارٹی اور واٹر مینجمنٹ پالیسی کا انعقاد ناگزیر ہے۔ انڈس واٹر ڈیفنس فورس قائم کی جائے۔ اور اس مسئلہ کو فی الفور انٹر نیشنل کورٹ میں اٹھایا جائے ۔ تباہی سے بچنے کیلئے اب صرف یہی ہی راستہ ہے ۔