قومی اسمبلی میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدرمملکت کے خطاب پربحث جاری، اراکین کا مفاہمت کے ذریعے ملکی اور عوامی مسائل کوحل کرنے کی ضرورت پرزور

بدھ 15 مئی 2024 23:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 مئی2024ء) قومی اسمبلی میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدرمملکت کے خطاب پربحث بدھ کوبھی جاری رہی اورمختلف سیاسی جماعتوں کے اراکین نے تمام سیاسی جماعتوں کومل کرمفاہمت کے ذریعے ملکی اور عوامی مسائل کوحل کرنے کی ضرورت پرزوردیا ہے، اراکین نے ملک بھرمیں کسانوں کے مسائل کے حل کیلئے اقدامات کا مطالبہ بھی کیا۔

بدھ کوقومی اسمبلی میں سنی اتحادکونسل کی زرتاج گل وزیر نے صدارتی خطاب پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ صدرنے اپنے خطاب میں قائد اعظم سے لے کر شہیدذوالفقارعلی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی سے سبق سیکھنے کی بات کی ہے ، انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 90 فیصد خواتین گھریلو تشدد کا شکار ہورہی ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ ملک میں سیاست میں حصہ لینے والی خواتین کو سیاسی بنیادوں پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ،صدر نے اپنے خطاب میں برداشت کی بات کی ہے مگر الیکشن میں مجھے اپنے حلقے میں جانے نہیں دیا گیا ۔

انہوں نے کہاکہ خواتین کو سیاست میں آزادانہ طور پر حصہ لینے کا حق ملنا چاہئے اور سیاسی مخالف خواتین کے حقوق کا تحفظ ہونا چاہئے۔ انہوں نے سکولوں سے رہ جانے والی لڑکیوں کی تعلیم کیلئے اقدامات کامطالبہ بھی کیا۔ مسلم لیگ ن کے سردارمحمدیوسف نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ عوام نے قومی مسائل کے حل کیلئے ایوانوں میں بھیجاہے، ہم سب نے آئین کے تحت حلف لیاہے اوراس کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے،الزام تراشی وجوابی الزام تراشی اورمخالفت برائے مخالفت کی سیاست کا خاتمہ ہونا چاہئے۔

انہوں نے کہاکہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی تیسری باراقتدارمیں آئی ہے مگر جس طرح وہاں کے عوام کونقصان ہواہے پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہواہے،وہاں پرترقی کی راہیں بندہوگئی ہیں، پی ٹی آئی کواپنے گریبانوں میں جھانکناچاہئے،2005کے زلزلہ سے ہزارہ ڈویژن میں تاریخی نقصان ہوا، مانسہرہ میں 250سکول ایسے ہیں جہاں پرچھت نہیں ہے، یہ لوگ 10 برسوں سے ان سکولوں کو چھت فراہم نہیں کررہے کیونکہ مانسہرہ کے عوام نے مسلم لیگ ن کوووٹ دئیے تھے،ساڑھے تین لاکھ کی آبادی والے شہرمانسہرہ کیلئے یہ لوگ پانی تک فراہم نہیں کررہے، صوبائی حکومت ٹینڈرنہیں دے رہی،10 برسوں میں مانسہرہ میں کوئی نیا سکول، ہسپتال اورسڑک نہیں بنے ہیں، نیوبالاکوٹ شہرمیں ابھی تک لوگوں کومنتقل نہیں کیاگیا، ہمارے لوگ اب بھی پناہ گاہوں میں رہ رہے ہیں۔

نوابزادہ افتخارنے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ صدرکاخطاب جمہوریت کیلئے نیک شگون ہے، وہ پہلے سویلین صدرہیں جنہیں دوسری بارمنتخب کیاگیا، صدرنے سابق 5 سالہ دورمیں صوبوں کواختیارات دیئے، کے پی اورجی بی کوشناخت دی، ان کے دورمیں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا اورنہ ہی سیاسی بنیادوں پرکسی کے خلاف پرچہ ہوا،انہوں نے جمہوریت کی خاطر14سال قید کاٹی اورآخر میں بے گناہ ثابت ہوئے۔

انہوں نے کہاکہ صدرنے اپنے خطاب میں مفاہمت کی بات کی ہے، تمام سیاسی جماعتوں کومل کرمفاہمت کے زریعہ ملک کوآگے لیکر چلنے کیلئے کام کرنا چاہئیے۔ انہوں نے گندم کے مسئلہ پرایوان کواعتمادمیں لینے کامطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ گندم اگر نہ خریدی گئی تو کسان کپاس کس طرح اگا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بجٹ میں جنوبی پنجاب میں پانی، بجلی، اور سڑکوں کیلئے خصوصی فنڈز مختص کرنے چاہئیں۔

سنی اتحادکونسل کے زین قریشی نے اپنے خطاب میں کہاکہ صدرپاکستان نے اپنی تقریر میں آئین اورقانون کی بالادستی کی بات کی ہے، بلاول بھٹوصاحب نے تاریخی جملہ کہاتھاکہ جمہوریت بہترین انتقام ہے مگرافسوس اس بات کا ہے کہ وہ حکومت کاحصہ بنے ہیں۔انہوں نے کہاکہ وہ پی پی پی اوراس کے قائدین کی قربانیوں کوفراموش نہیں کرنا چاہتے مگر حکومت میں شامل ہونے سے ان کے بیانیہ کونقصان ہواہے۔

انہوں نے کہاکہ آئین اورجمہوریت کیلئے ان کے والد پابند سلاسل ہیں،ہم نے مشکل حالات میں الیکشن میں حصہ لیاہے۔انہوں نے کہاکہ مفاہمت کیلئے قول وفعل میں تضاد کاخاتمہ ہونا چاہئے،صدر نے قانون کی حکمرانی کی بات کی ہے ہمارے لیڈرکا بھی یہی موقف ہے ،ہم سمجھتے ہیں کہ پارلیمان کی بالادستی ہونی چاہئے مگر اس کیلئے فریم ورک بنانا ضروری ہے اورعملی اقدامات کرنا ہوں گے۔

انہوں نے کہاکہ آئی ایم ایف کی ہدایت پربجلی اورگیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیاہے جس سے لوگوں کومشکلات کاسامنا ہے، اس صورتحال کوبہتربنانا ہوگا،کسانوں کے گندم کامسئلہ حل کرنا ضروری ہے،ہمارامطالبہ ہے کہ عدلیہ کوآزادہوناچاہئے، ججز صاحبان کے خط پرایکشن لینا چاہئے،سوشل میڈیا پر پابندیاں نہیں ہونی چاہئیں، ہم تنقید برائے اصلاح کاسلسلہ جاری رکھیں گے،سیاسی قائدین و کارکنوں کی رہائی اور 9 مئی کے واقعات پرکمیشن بننا چاہئے، جولوگ ملوث ہیں انہیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

ڈاکٹرشائستہ خان جدون نے کہاکہ صدر مملکت کے خطاب کے دوران اس ایوان میں جوکچھ ہواوہ قابل افسوس تھا۔خیبرپختونخوا 10 سالوں سے غلامی کی زنجیروں میں ہے، وہاں پرالیکشن میں سیاسی مخالف خواتین کے ساتھ جوکچھ ہواہے وہ افسوسناک ہے، پورے ہزارہ ڈویژن میں صرف ایک ٹریژری ہسپتال ہے پورے 10 سالوں میں ایک اسپتال نہیں بناسکے، دیر کے ایک اسپتال میں اپنڈکس کے 4 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن سے صحت کے شعبہ میں کرپشن کی عکاسی ہورہی ہے، حقائق سامنے آرہے ہیں،خیبرپختونخوا کاکوئی پرسان حال نہیں ہے،تعلیم، پانی اوربجلی کے مسائل موجودہیں جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔

خورشیداحمدجونیجونے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہاکہ صدرکے خطاب کے دوران ہنگامہ آرائی افسوسناک امرہے، صدرآصف علی زرداری نے اپنے خطاب میں ایک روڈمیپ اوروژن دیا ہے، صدرنے مل جل کرملک کی خدمت کرنے کی بات کی ہے جس پرعملدرآمدکرنے کی ضرورت ہے،شہید ذوالفقارعلی بھٹو اورشہید بے نظیربھٹو نے ملک میں جمہوریت اورآئین کی بالادستی کیلئے کام کیا اورمسائل کاسامنا کیا،بے نظیر بھٹو اورآصف علی زرداری نے حکومت میں آنے کے بعد کسی سے سیاسی انتقام نہیں لیا۔

مفاہمت کے بغیرہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔انہوں نے کہاکہ اس وقت ملک پر121 ارب ڈالرکاقرضہ ہے،مل کر ملک کومعاشی مسائل سے نکالاجاسکتا ہے۔ جے یوآئی ف کے مولانا عبدالغفورحیدری نے کہاکہ صدرپاکستان کا خطاب آنے والے سال کیلئے حکومت چلانے کاوژن دیتاہے، بلوچستان کواس وقت کئی مسائل کاسامنا ہے، بلوچستان کے زمیندارسراپا احتجاج ہیں، کل وزیراعظم سے بھی میری ملاقات ہوئی اوران کی خدمت میں گزارش کی کہ صوبہ میں زمین داروں کوصرف دو گھنٹے بجلی دی جارہی ہے، وہاں پرنہری نظام نہیں ہے اورزراعت سے لوگوں کاروزگارجڑاہے۔

وزیراعظم اور وزیراعلیٰ نے بھی اقدامات اٹھائے ہیں اللہ کرے کہ ان پرعملدرآمدہو۔ انہوں نے کہاکہ صوبہ میں پانی کی سطح میں کمی ہورہی ہے، وہاں پرڈیموں کی ضرورت ہے جس میں وفاق کی ذمہ داریاں زیادہ ہیں کیونکہ صوبہ کے پاس وسائل نہیں ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہمارے پاس معدنی ذخائرہیں، گزشتہ حکومت کے دورمیں سی پیک کوغیرموثرکردیا گیاتھا جوافسوسناک ہے، چین ہمارا آزمودہ دوست ہے جس نے مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا، میری درخواست ہے کہ سی پیک کوفعال کیاجائے اورمعاہدات پرعملدرآمد ہونا چاہئے، اس سے صوبہ اورپاکستان کوفائدہ ہوگا۔

صوبہ میں تعلیم اورسڑکوں کی تعمیرکیلئے ہنگامی بنیادوں پراقدامات کرنے چاہئیں۔انہوں نے کہاکہ قومیں بھوک برداشت کرسکتی ہیں مگراپنی آزادی اورخودمختاری پرسمجھوتہ نہیں کرتیں، ہمیں آئی ایم ایف کے چنگل سے نکلنا ہوگا۔تمام صوبوں میں خواتین کیلئے علیحدہ یونیورسٹیاں بنائی جائیں۔انہوں نے کہاکہ صدرنے اپنے خطاب میں جمہوریت کی بات کی ہے، جمہوریت کیلئے شہیدوں کی فہرست میں ہمارے شہیدوں کی تعداد زیادہ ہے۔جمہوریت شفاف انتخابات اور آئین پرعمل درآمد سے مستحکم ہوسکتی ہے۔ تمام اداروں کو آئین کے دائرہ کارکے اندررہتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔جمہوریت میں مداخلت کو روکنے کیلئے ہم میدان میں نکلے ہیں۔جمہوریت مستحکم ہونے سے ملک میں استحکام آسکتاہے۔