IGکراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 04 اگست2024ء) وزارت بیرون ملک پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت
پاکستان کے ذیلی ادارہ ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) میں ادارہ کی افرادی قوت کی ری اسٹرکچرنگ کی آڑ میں
کراچی اور
ملتان میں مزید دو بینی فٹس اینڈ کنٹری بیوشن (B&C) آفس اور اس کے متعلقہ دو ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹیز قائم کرکے بعض منظور نظر افسران کو ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے پرکشش عہدوں پر ترقیوں سے نوازنے کا انکشاف ہوا ہے۔
ای او بی آئی کے سابق افسر تعلقات عامہ اسرار ایوبی کے مطابق اس منصوبہ کی بورڈ آف ٹرسٹیز کی ذیلی ایچ آر کمیٹی سے منظوری حاصل کرنے کے لئے نہایت رازداری کے ساتھ چھ صفحات پر مشتمل ایک ورکنگ پیپر تیار کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ای او بی آئی کے
کراچی میں بینی فٹس اینڈ کنٹری بیوشن آفسI، ( برائے
سندھ و
بلوچستان) ،لاہور میں بینی فٹس اینڈ کنٹری بیوشن آفس II،(برائے جنوبی
پنجاب) اور اسلام آباد میں بینی فٹس اینڈ کنٹری بیوشن III،( برائے شمالی
پنجاب ، خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان) اور ان سے منسلکہ تین ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹیز پہلے ہی قائم ہیں۔
(جاری ہے)
لہذاء مجوزہ دو نئے بینی فٹس اینڈ کنٹری بیوشن آفس اور دو ایڈجوڈیکیٹنگ اتھارٹیز کے دفاتر کے قیام سے سالانہ کروڑوں روپے کے اخراجات متوقع ہیں۔اسرار ایوبی نے خدشہ ظاہر کیا کہ دو نئے بینی فٹس اینڈ کنٹری بیوشن آفس اور دو ایڈجوڈیکیٹنگ اتھاریٹیز جلد ہی ماضی میں نظریہ ضرورت کے تحت قائم کئے گئے زونل آفسوں کی طرح ای او بی آئی کے لئے سفید ہاتھی بن جائیں گے۔
ای او بی آئی میں ماضی میں بھی متعدد بار بعض منظور نظر افسران کو نوازنے کے لئے ادارہ کی افرادی قوت کی ری اسٹرکچرنگ کی آڑ میں گھناؤنا
کھیل کھیلا جاچکا ہے۔ جس کے تحت ایک دور میں انتظامیہ کے بعض چہیتے افسران کو نوازنے کے لئے
کراچی، حیدر آباد،
ملتان، لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، اسلام آباد اور
پشاور میں ریجنل آفسوں کی نگرانی کے لئے اعلیٰ سطح پر زونل آفس قائم کئے گئے تھے۔
جنہیں بعد ازاں آنے والے چیئرمین بریگیڈیئر (ر) اختر ضامن اور خاقان مرتضیٰ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ایچ آر ڈپارٹمنٹ(موجودہ چیئرمین ای او بی آئی) کی انتظامیہ کے دور میں غیر مؤثر قرار دے کر ختم کر دیا گیا تھا۔ لیکن اب حیرت انگیز طور ایک بار پھر چیئرمین خاقان مرتضیٰ کے دور میں چند منظور نظر افسران کی ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے پرکشش عہدوں پر تعیناتی کے لئے ادارہ کی افرادی قوت کی ری اسٹرکچرنگ کی آڑ میں ماضی کا ناکام تجربہ دہرایاجا رہا ہے۔
جبکہ ای او بی آئی جیسے فلاحی ادارہ نے پہلے ہی چھ ڈائریکٹر جنرل( گریڈ 20)، ڈائریکٹر جنرل ایچ آر اینڈ جی اے، ڈائریکٹر جنرل/فنانشل ایڈوائزر( ڈیپوٹیشن پر)، ڈائریکٹر جنرل انوسٹمنٹ ( ڈیپوٹیشن پر)، دو ڈائریکٹر جنرل آپریشنز (ڈیپوٹیشن پر )، اور ڈائریکٹر جنرل انٹرنل آڈٹ اور نو ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل (مساوی گریڈ19) کے اعلیٰ عہدوں کا بھاری بوجھ اپنے ناتواں کاندھوں پر اٹھایا ہوا ہے۔
اسی لئے بورڈ آف ٹرسٹیز گزشتہ دنوں ڈائریکٹر جنرل آپریشنز (نارتھ)
لاہور کی آسامی کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے ختم کر دیا تھا۔ اسرار ایوبی کا مزید کہنا ہے کہ اس قدر بڑی تعداد میں ڈائریکٹر جنرل اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ای او بی آئی کے علاوہ ملک کے کسی اور فلاحی ادارہ میں نہیں پائے جاتے۔ ماضی میں ای او بی آئی کی انتظامیہ ایک چیئرمین اور ایک ڈائریکٹر جنرل آپریشنز پر مشتمل ہوا کرتی تھی اور ڈائریکٹر کی سطح کے افسران ڈپارٹمنٹل ہیڈز ہوا کرتے تھے۔
اسی دور میں ای او بی آئی ملک کے لاکھوں محنت کشوں اور ان کے لواحقین کو تاحیات پنشن کی فراہمی کے لئے انتظامی اور مالی طور پر ایک نہایت مستحکم قومی ادارہ بن کر ابھرا تھا۔ بعد ازاں
چور راستوں سے آنے والے بعض اعلیٰ افسران نے اپنے ذاتی مفادات کے لئے ہر ڈپارٹمنٹ کے لئے ڈائریکٹر جنرل اور ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے متعدد عہدے متعارف کرائے تھے۔
جبکہ صرف ایک ڈائریکٹر جنرل کی تنخواہ اور پرکشش مراعات کی مد میں ماہانہ کم از کم 25 لاکھ روپے کے اخراجات آتے ہیں۔ واضح رہے کہ ای او بی آئی ایک ٹرسٹ ادارہ ہے جو لاکھوں محنت کشوں کی جانب سے مستقبل میں اپنی پنشن کی امید پر جمع کروائے جانے والے ماہانہ چندہ (Contribution) کی بنیاد پر قائم ہے۔اسرار ایوبی کا کہنا ہے کہ بورڈ آف ٹرسٹیز کی ذیلی ایچ آر کمیٹی میں بھی صوبہ
پنجاب کا غلبہ پایا جاتا ہے اور اس کی نمائندگی میں ملک کے چھوٹے اور پسماندہ صوبوں کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔
صوبہ
بلوچستان سے بورڈ میں ملازمین کے نمائندے سرزمین افغانی اور صوبہ
سندھ سے آجران کے نمائندے میاں طارق رفیع کافی عرصہ قبل مستعفی ہوچکے ہیں جبکہ صوبہ
سندھ سے ملازمین کے نمائندے اجلاسوں کے دوران منہ میں گھنگیاں ڈالے محض اپنی فیس کی وصولی ،دو طرفہ ایئر ٹکٹ اور بہترین قیام وطعام کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں اور حکومت
سندھ کے نمائندے نے بورڈ کا مکمل بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔
بورڈ آف ٹرسٹیز کی چھ رکنی ایچ آر کمیٹی کے کنوینر نعیم غوث، سیکریٹری محکمہ محنت و انسانی وسائل
حکومت پنجاب، ارکان میں نیاز احمد سیکریٹری محنت و انسانی وسائل حکومت
بلوچستان،محمد وشاق جوائنٹ سیکریٹری وزارت بیرون ملک پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت
پاکستان، اطہر ساجد فنانشل ایڈوائزر وزارت بیرون ملک پاکستانی و ترقی انسانی وسائل حکومت
پاکستان، چوہدری محمد نسیم اقبال نمائندہ ملازمین صوبہ
پنجاب اور ملک طاہر جاوید نمائندہ آجران صوبہ
پنجاب شامل ہیں۔
جس کے باعث ملک کے چھوٹے اور پسماندہ صوبوں
سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والوں میں شدید احساس محرومی پایا جاتا ہے۔ ایچ آر کمیٹی کا اجلاس 5 اگست کو دن 11:30 بجے zoom پر منعقد ہوگا جس میں کمیٹی ای او بی آئی میں افرادی قوت کی ری اسٹرکچرنگ کی تجاویز پر فیصلہ کرے گی۔ اس کے پیش نظر بااثر افسران کا مخصوص گروپ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے پرکشش عہدوں ترقیوں کے لئے بری طرح بیتاب نظر آتا ہے۔
واضح رہے کہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے پرکشش عہدوں کے منتظر ان منظور نظر افسران کے خلاف ای او بی آئی کے چند سینئر افسران کی جانب سے ان کی خلاف ضابطہ بھرتیوں اور سنیارٹی کے خلاف
سندھ ہائی
کورٹ اور اسلام آباد ہائی
کورٹ میں دو آئینی پیٹیشنز بھی زیر
سماعت ہیں۔ جس کے مطابق 2007ئ بیچ سے تعلق رکھنے والے چھ بااثر افسران انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (IBA)
کراچی کے لازمی تحریری ٹیسٹ میں فیل ہوگئے تھے اور ایک منظور نظر امیدوار نے تو سرے سے اس تحریری ٹیسٹ میں شرکت ہی نہیں کی تھی۔
اب یہ چہیتے اور بااثر افسران ملک کے مختلف شہروں میں ریجنل ہیڈز کے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ ای او بی آئی میں بااثر افسران کی اسی منفی روش کے باعث ماضی میں ای او بی آئی پنشن فنڈ میں اربوں روپے مالیت کے متعدد اسکینڈلز نے جنم لیا تھا جس کے نتیجہ میں ای او بی آئی پنشن فنڈ کو ناقابل تلافی
نقصان پہنچا ہے۔اسرار ایوبی کا مزید کہنا ہے کہ ای او بی آئی کے چیئرمین فلائیٹ لیفٹیننٹ (ر) خاقان مرتضیٰ کی ریٹائرمنٹ رواں برس 18 ستمبر کو متوقع ہے اور ادارہ کی افرادی قوت کی ری اسٹرکچرنگ کی آڑ میں منظور نظر افسران کے کیرئیر پلاننگ کے منصوبہ سے دیانتدارانہ شہرت کے حامل اور اصول پرست چیئرمین فلائیٹ لیفٹیننٹ (ر) خاقان مرتضیٰ کی نیک نامی بھی داؤ پر لگ گئی ہے۔
اسرار ایوبی کا مزید کہنا ہے کہ ای او بی آئی میں چونکہ ابتداء سے بڑے پیمانے پر بااثر افسر شاہی کا راج قائم رہا ہے لہذاء ادارہ میں افسران اور اسٹاف ملازمین کا تناسب انتہائی غیر منطقی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ادارہ میں افسران کی کل تعداد 1223 اور اسٹاف ملازمین کی تعداد محض 655 ہے۔ اگرچہ اسٹاف ملازمین ای او بی آئی میں اپنی خدمات کے حوالہ سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اور نہایت قیمتی اثاثہ ہیں لیکن اس کے باوجود یہ کمزور طبقہ ادارہ میں محکوم اور اپنے جائز مقام سے محروم رہا ہے۔
جبکہ ای او بی آئی میں حالیہ نئی بھرتیوں میں بھی صرف 250 افسران کی اسامیوں کو ترجیح دی گئی ہے اور جان بوجھ کر اسٹاف ملازمین کی خالی اسامیوں کو بھرتیوں کے عمل میں شامل نہیں کیا گیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ای او بی آئی کے موجودہ سہ فریقی 16 رکنی بورڈ آف ٹرسٹیز کی دو سالہ مدت بھی 2015ء میں ختم ہوچکی ہے لیکن اس کے باوجود تاحال پرانا بورڈ برقرار ہے۔
اس صورت حال سے فایدہ اٹھاتے ہوئے ماضی میں ادارہ کے بعض بااثر افسران نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے بورڈ آف ٹرسٹیز اور چیئرمین کو گمراہ کرکے اپنے ذاتی مفاد ات میں غیر قانونی فیصلے کروائے تھے جنہیں بعد ازاں واپس لینا پڑا تھا جس کے نتیجہ میں بورڈ اور چیئرمین کو سبکی بھی اٹھانی پڑی تھی ۔ اس وقت ادارہ میں ہر سو 2007ء کے بیچ سے تعلق رکھنے والے بااثر افسران کلیدی عہدوں پر فائز ہیں اور انہوں نے منظم طور سے پورے ای او بی آئی کو یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے ۔
کیونکہ ای او بی آئی میں یہ دستور رہا ہے کہ ہر آنے والے چیئرمین کے گرد اس گروپ سے تعلق رکھنے والے پانچ پیارے
حلقہ بنا کر انہیں گمراہ کرکے اپنا الو سیدھا کرتے رہتے ہیں۔ای او بی آئی میں ماضی میں بھی متعدد بار بعض منظور نظر افسران کو نوازنے کے لئے ادارہ کی افرادی قوت کی ری اسٹرکچرنگ کا گھناؤنا
کھیل کھیلا جاچکا ہے۔ موجودہ افرادی قوت کی ری اسٹرکچرنگ کی آڑ میں بھی منظور نظر افسران کی کیریئر پلاننگ کے ورکنگ پیپر میں چیئرمین اور بورڈ کی ایچ آر کمیٹی کو متضاد اعداد و شمار کے ذریعہ گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور
کراچی اور
ملتان میں بلا جواز دو نئے بینی فٹس اینڈ کنٹری بیوشن آفسوں اور دو ایڈجوڈیکیٹنگ اتھاریٹیز کے قیام کی تجویز پیش کرتے وقت ملک کے چھوٹے اور پسماندہ صوبوں
سندھ، خیبر پختونخوا اور
بلوچستان کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔
اسرار ایوبی نے
کراچی اور
ملتان میں بلا جواز طور پر مزید دو بینی فٹس اینڈ کنٹری بیوشن آفس اور ایڈجوڈیکیٹنگ اتھاریٹیز قائم کرنے کے بجائے ملک کے چھوٹے اور پسماندہ صوبوں میں ای او بی آئی کے مزید ریجنل آفسوں اور فیلڈ آفسوں کے قیام اور مزید تعداد میں صنعتی، کاروباری، تجارتی اور دیگر اداروں اور ان کے ملازمین کی رجسٹریشن، ماہانہ کنٹری بیوشن کی وصولیابی کرنے اور ای او بی آئی کے بزرگ، معذور بیمہ دار افراد اور متوفی بیمہ دار افراد کی پردہ نشین بیوگان کے لئے پنشن کے لئے بہتر خدمات اور سہولیات کی فراہمی پر زور دیا تاکہ ملک کے پسماندہ اور دور افتادہ علاقوں میں قائم ہزاروں نجی صنعتی، کاروباری ، تجارتی اور دیگر اداروں میں خدمات انجام دینے والے لاکھوں ملازمین اور ان کے لواحقین بھی ملک کے دیگر ترقی یافتہ علاقوں کے باشندوں کی طرح ای او بی آئی کی تاحیات پنشن سے مستفید ہو سکیں۔
اسرار ایوبی نے صوبہ
سندھ میں میگا سٹی
کراچی کے مختلف علاقوں،
تھر پارکر، صوبہ
بلوچستان میں خضدار، تربت،
گوادر، صوبہ خیبر پختونخوا میں
فاٹا اور آزاد
کشمیر میں ای او بی آئی کے نئے ریجنل آفسوں اور فیلڈ آفسوں کا قیام کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا ہے۔