اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 ستمبر 2024ء) پاکستان میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کو پیر کی رات گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس اور پاکستان تحریک انصاف دونوں نے ان گرفتاریوں کی تصدیق کی ہے، تاہم دونوں کی جانب سے گرفتار لیڈروں کی تعداد کے بارے میں فراہم کی گئی تفصیلات یکساں نہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کو پولیس کے ایک ترجمان نے چار افراد کی گرفتاریوں کی تصدیق کی ہے۔
تاہم پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ 13 افراد کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے باہر اور دیگر مقامات سے گرفتار کیا گیا۔پی ٹی آئی کے لیڈر ذوالفقار بخاری نے کہا ہے کہ گرفتار ہونے والوں میں پی ٹی آئی کے چیئرمین گوہر علی خان اور سینیئر لیڈران شعیب شاہین اور شیر افضل مروت شامل ہیں۔
(جاری ہے)
اس کے علاوہ آج قومی اسمبلی سے خطاب کے دوران پی ٹی آئی کے لیڈر علی محمد خان کا کہنا تھا کہ صاحبزادہ حامد رضا، شفقت اعوان، عامر ڈوگر، شیخ وقار اکرم اور مولانہ نسیم کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
ٹی وی پر نشر کی جانے والی گزشتہ رات کی پارلیمنٹ کے باہر کی ویڈیوز میں پولیس کو پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو گاڑیوں میں دھکیلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
اس دوران قومی اسمبلی میں موجود پی ٹی آئی کے لیڈر زین قریشی نے ڈی ڈبلیو سے فون پر گفتگو کے دوران بتایا تھا کہ وہ اور ان کے کچھ دیگر ساتھی اسمبلی میں موجود ہیں، جسے ''پولیس نے گھیرے میں لے رکھا ہے‘‘۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق سے رابطہ کرکے انہیں صورتحال سے آگاہ کر دیا ہے لیکن ''ابھی تک اس سلسلے میں کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہو سکی ہے‘۔‘ان گرفتاریوں سے ایک دن قبل پی ٹی آئی نے ملکی دارالحکومت اسلام آباد کے مضافات سنگجانی میں ایک جلسہ منعقد کیا تھا۔ اس جلسے میں پی ٹی آئی کے بانی رہنما عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا، جو ایک سال سے زائد عرصے سے جیل میں ہیں۔
اس جلسے کے شرکا اور پولیس کے مابین جھڑپیں بھی ہوئی تھیں اور پولیس کے مطابق اس دوران ایک سینیئر پولیس اہلکار زخمی ہو گیا تھا۔ پی ٹی آئی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ پولیس نے اس پر امن اجتماع کے شرکا کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
اس جلسے میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں، بالخصوص صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے ملک کی موجودہ حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے ہوئے سخت لہجہ اختیار کیا تھا۔
پیر کو گنڈا پور کی گرفتاری کی خبریں بھی گردش کر رہی تھیں، تاہم مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق کئی گھںٹے منظر سے غائب رہنے کے بعد وہ آج پشاور پہنچ گئے۔
عمران خان
کو سن 2022 میں ملک کی عسکری قیادت کے ساتھ اختلافات کے بعد تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور اب انہیں متعدد کیسز مین قانونی کارروائی کا سامنا ہے۔’پارلیمان کا تقدس پامال‘
پی ٹی آئی کے لیڈر عمر ایوب نے پیر کی رات پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی گرفتاریوں کو ''قابل نفرت‘‘ امر قرار دیا ہے۔ اسی طرح ذوالفقار بخاری نے ان گرفتاریوں کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما سلمان اکرم راجا نے ارکان اسمبلی کی گرفتاریوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ''جس طرح یہ گرفتاریاں کی گئی ہیں اس سے پارلیمان کا تقدس پامال ہوا ہے۔
‘‘سیاسی تجزیہ کار حبیب اکرم کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا، ''جو حکومت پارلیمنٹ میں سے ارکان اسمبلی کو اٹھوا سکتی ہے اس سے کے پی (خیبر پختونخوا) میں گورنر راج لگوانے کی امید رکھنا بعید از قیاس نہیں۔ مجھے نظر نہیں آتا کہ حکومت کی طرف سے حالات کو معمول پر لانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ بلکہ وہ تو تناؤ میں اضافہ کرتی دکھائی دے رہی ہے۔
‘‘اس حوالے سے دفاعی تجزیہ کار فاروق حمید خان کا کہنا تھا، ''یہ بات درست ہے کہ پی ٹی آئی کے جلسے میں کی جانے والی کئی تقریروں میں ریڈ لائن کراس کی گئی تھی، جو کہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ہم جو مناظر اسلام آباد میں دیکھ رہے ہیں وہ دراصل پی ٹی آئی کے کچھ لیڈروں کی طرف سے ریاست کو چیلنج کرنے پر ردعمل ہے۔‘‘
تنویر شہزاد (روئٹرز)