کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 اکتوبر2024ء) وزیراعلیٰ
سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت یا آئی ایم ایف نے ان سے این
ایف سی ایوارڈ یا اٹھارھویں ترمیم پر کوئی بات نہیں کی اس کے برعکس وفاقی حکومت نے کچھ وزارتیں ختم کرکے اٹھارھویں ترمیم پر عملدرآمد بھی شروع کردیا ہے۔وزیراعلیٰ
سندھ مقامی
ہوٹل میں
عالمی بینک کی ساتھ ایشیا ڈیولپمنٹ اپڈیٹ اور
پاکستان ڈیولپمنٹ اپڈیٹ برائے اکتوبر 2024 کے اجرا کی تقریب سے خطاب کے بعد میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ کچھ معاملات پر ہماری حکومت کے تحفظات ہیں جن پر وفاقی حکومت سے بات چیت جاری ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی صرف ان ہی اقدامات کی حمایت کرے گی جو ملکی مفاد میں ہوں گے۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعلی
سندھ نے کہا کہ انہوں نے آج صبح پڑھا ہے کہ وفاقی حکومت نے پانچ آئی پی پیز کے ساتھ
بجلی کی خریداری کے معاہدے ختم کردیے ہیں جس سے
بجلی کے نرخ کچھ کم ہوں گے۔
(جاری ہے)
مراد علی شاہ نے کہا کہ انہوں نے پہلے بھی تجویز کیا تھا کہ حکومت کو اضافی
بجلی کو کھپانے کیلیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ وہ صنعتیں جو آٹھ گھنٹے کی معمول کی سفٹ کے علاوہ رات کی شفٹ شروع کریں، ان کو سستے نخوں پر
بجلی فراہم کی جائے۔ اس سے بیروزگار افراد کے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ پیداوار بہتر ہوگی اور وفاقی حکومت کی جانب سے آئی پی پیز کو ادا شدہ کیپیسٹی چارجز بھی کام آ جائیں گے۔
اب سنا ہے کہ وفاقی حکومت نے
سردیوں میں ہماری تجویز پر عملدرآمد کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے
عالمی بینک کے ساتھ ایشیا اور
پاکستان ڈیولپمنٹ اپ ڈیٹ 2024 کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ
سندھ نے کہا کہ رپورٹس میں
پاکستان اور جنوبی ایشیا کو درپیش
معاشی چیلنجز کی اہم تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ رپورٹ پائیدار ترقی کیلیے روڈ میپ کی حیثیت رکھتی ہے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ 2022 کے تباہ کن بارشوں سے صوبے کا 70 فیصد حصہ ڈوب گیا تھا۔ انفرا اسٹرکچر تباہ ہوگیا۔
کووڈ 19 کی وجہ سے پہلے سے سست روی کا شکار ترقی کا عمل مزید رک گیا۔ اس کے باوجود
سندھ حکومت نے انفرا اسٹرکچر بحال کیا اور صوبے کے عوام کو درپیش
معاشی مشکلات کا سدباب کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم مشکلات سے نمٹنے کیلیے پرعزم ہیں اور
سندھ کے عوام نے ہم پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا ہے۔
غربت سے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعلی
سندھ نے کہا کہ صوبائی حکومت نے 2023 کی رپورٹ میں بڑھتی غربت سے متعلق حقائق کو سنجیدگی سے لیا۔ حکومت
سندھ نے معاشرے کے انتہائی پسماندہ طبقوں کی مدد کیلیے کئی اقدامات کیے۔ 2022 کے
سیلاب میں بیگھر ہونے والے 20لاکھ سے زائد متاثرین کیلیے ہنگامی بنیادوں پر گھروں کی تعمیر کا منصوبہ اس سلسلے کی اہم کڑی ہے۔
موسمی اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا گیا یہ منصوبہ دیہی علاقوں میں سماجی اور
معاشی تبدیلیوں کا حامل ہے۔ وزیراعلی
سندھ جن کے پاس وزارت خزانہ کا قلمدان بھی ہے نے واضح کیا کہ حکومت نے ضلعی انتظامیہ کو ضروری اشیا کی قیمتیں کنٹرول کرنے کیلیے متحرک کیا ہے ۔ وفاقی حکومت کے ساتھ قریبی رابطے سے کنزیومر پرائس انڈیکس اور سینسٹو پرائیس انڈیکس کم کرنے کیلیے کوشاں ہیں۔
سید مراد علی شاہ نے
عالمی بینک کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ رپورٹ میں توانائی کے شعبے کے گردشی قرضوں پر روشنی ڈالی گئی ہے جن کی وجہ سے
بجلی کے بل انتہائی بڑھ گئے ہیں۔ حکومت
سندھ نے وفاقی اداروں کے تعاون سے
بجلی کی چوری کم کرنے اور واجبات کیو صولی کیلیے آپریشنز کو تیز کیا ہے۔ وزیراعلی
سندھ نے کہا کہ صوبائی حکومت
غریب طبقے کی مالیاتی سہولیات تک عدم رسائی کے مسئلے کو ختم کرنے کیلیے سرگرم ہے۔
تخفیف غربت کے پیپلز پروگرام کے تحت
غریب سرمایہ کاروں کو صفر شرح سود پر قرضے دیے جا رہے ہیں۔ اس پروگرام کو عالمی زرعی ترقیاتی فنڈ اور
یورپی یونین کی مدد سے چھوٹے
کاروبار اور جدید ایس ایم ایز تک وسعت دینے کیلیے کام کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں حکومت کے مقامی قرضوں میں اضافے پر تشویش پر بات کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے شرکا کو مالی نظم و ضبط کی یقین دہانی کرائی۔
ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ مقامی قرضے لینے کی اجازت ہے لیکن
سندھ نے زیادہ تر قرضے لینے سے گریز کیا ہے، اس کے بجائے ہم نے ٹیکس اصلاحات کے ذریعے محصولات میں اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت
سندھ نے زیادہ تر قرضے
سیلاب متاثرہ علاقوں کی بحالی کیلیے عالمی ترقیاتی شراکت داروں سے لیے ہیں جو انتہائی کم شرح سود پر ہیں۔ وزیراعلی
سندھ نے بتایا کہ
سندھ کی توانائی پالیسی میں بھی مقامی وسائل سے
بجلی پیدا کرنے پر توجہ دی گئی ہے۔
نئی توانائی پالیسی کا جلد اعلان کیا جائیگا۔ پالیسی کے تحت صوبے کو توانائی کے شعبے میں خود کفیل بنانے کیلیے روایتی اور قابل تجدید ذرائع سے
بجلی کی پیداوار میں مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو ترجیح دی جائے گی۔مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم جانتے ہیں گذشتہ چند سال سے خطے ، خاص طور پر
سندھ کو متعدد چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ 2022 کے
سیلاب میں صوبے کا 70 فیصد علاقہ ڈوب گیا۔
انفرا اسٹرکچر اور فصلوں کو
نقصان ہوا، حکومت
سندھ کیلیے ممکنہ مختصر ترین مدت میں انفرا اسٹرکچر کی بحالی ایک چینلنج بن گیا تھا۔صوبائی وزیر منصوبہ بندی و ترقیات ناصر حسین شاہ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت
سندھ نے وفاقی حکومت کے ترقیاتی منصوبوں پر دیگر صوبوں کے مقابلے زیادہ موثر طریقے سے عملدرآمد کیا ہے۔ منصوبوں کی تکمیل سے عوام کو فائدہ ملنا شروع ہوگیا ہے۔
تقریب میں صوبائی وزرا
ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو، سعید غنی، سید سردار شاہ، جام خان شورو، مشیر نجمی عالم، وقار مہدی، ارکان
صوبائی اسمبلی، چیئرمین پی اینڈ ڈی نجم شاہ اور مختلف محکموں کے صوبائی سیکریٹریز نے شرکت کی۔ عالمی
بنک کی رپورٹس چیف اکنامست برائے جنوبی ایشیا فرانزسکا لیزالوٹے آنزورج اور دیگر نے خیالات کا اظہار کیا۔