پاکستان 15 سے 16 اکتوبر تک شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی کونسل آف دی ہیڈز آف گورنمنٹ کے اجلاس کی میزبانی کریگا

پیر 14 اکتوبر 2024 18:11

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 اکتوبر2024ء) پاکستان 15 سے 16 اکتوبر 2024 تک یہاں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او ) کے رکن ممالک کی کونسل آف دی ہیڈز آف گورنمنٹ (سی ایچ جی ) کے 23 ویں اجلاس کی میزبانی کریگا۔ جناح کنونشن سنٹر میں ہونے والے اجلاس کی صدارت وزیر اعظم شہباز شریف کر رہے ہیں جو موجودہ چیئر مین سی ایچ جی ہیں۔ اس سربراہی اجلاس کا موضوع ہے ’’کثیر جہتی ڈائیلاگ کو مضبوط بنانا، ایک پائیدار امن اور خوشحالی کی طرف کوشاں‘‘ہے۔

چین، روس، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان کے ذریعے 15 جون 2001 کو قائم کیا گیا، شنگھائی تعاون تنظیم ایک مستقل بین الحکومتی بین الاقوامی تنظیم ہے جس کا مقصد کثیر الجہتی تعاون کو مضبوط کرنا، امن و سلامتی کو فروغ دینا، اور نئے اقتصادی بین الاقوامی نظام کو فروغ دینا ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان نے 2017 میں شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت اختیار کی۔

شنگھائی تعاون تنظیم کا اعلیٰ ترین فیصلہ ساز ادارہ ریاستوں کے سربراہان کی کونسل (سی ایچ ایس ) ہے جو سالانہ اجلاس کرتی ہے اور تنظیم کے تمام اہم امور پر فیصلہ کرتی ہے۔حکومت کے سربراہان کی کونسل شنگھائی تعاون تنظیم کے اندر دوسرا اعلیٰ ترین فورم ہے، جس کی بنیادی توجہ سماجی، اقتصادی، تجارت اور مالیاتی شعبوں میں رکن ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دینے پر ہے۔

کونسل سال میں ایک بار اجلاس کرتی ہے تاکہ تنظیم کے اندر کثیر جہتی تعاون اور ترجیحی شعبوں کی حکمت عملی پر تبادلہ خیال ، اقتصادی اور دیگر شعبوں میں بنیادی اور اہم مسائل کا تعین کیا جا سکے اور ایس سی او کے بجٹ کو منظور کیا جا سکے۔ ایس سی او ، سی ایچ جی کا گزشتہ اجلاس 26 اکتوبر 2023 کو بشکیک میں ہوا تھا اور پاکستان کی نمائندگی اس وقت کے نگراں وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کی تھی۔

مذکورہ اجلاس میں پاکستان نے 2023 سے 2024 تک حکومتی سربراہان کی کونسل کی گردشی سربراہی بھی سنبھالی تھی۔اسلام آباد میں منعقد ہونے والے ایس سی او، سی ایچ جی اجلاس میں چین کے وزرائے اعظم لی کیانگ، روس کے وزیر اعظم میخائل میشوستن ، بیلاروس کے وزیر اعظم رومن گولوچینکو، قازقستان کے وزیر اعظم اولزہاس بیکٹی نوف، کرغزستان کے وزیر اعظم اکیل بیک ،تاجکستان کے وزیر اعظم کوہر رسول زادہ، ازبک وزیر اعظم عبداللہ اریپوف، پہلے ایرانی نائب صدر محمد رضا عارف اور ہندوستانی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکرسمیت ایس سی او ممالک کے دیگر رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔

دیگر شرکاء میں منگولیا کے وزیر اعظم اویون اردین لویسنا مسرایی بطور مبصر اور وزراء کی کابینہ کے نائب چیئرمین اور ترکمانستان کے وزرائے خارجہ راشد میریدوف بطور مہمان خصوصی شامل ہیں۔بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں بشمول ایشیا میں انٹرایکشن اور اعتماد سازی کے اقدامات پر کانفرنس (سیکا)، آزاد ریاستوں کی دولت مشترکہ اور یورپی اقتصادی برادری کے نمائندوں کی بھی شرکت متوقع ہے۔

سربراہی اجلاس پاکستان کے لیے سفارت کاری، تزویراتی امور اور معیشت میں اپنی صلاحیتوں کو دکھانے کا سنہری موقع ہے۔اس سربراہی اجلاس کے اہم ایجنڈے میں علاقائی سلامتی،انسداد دہشت گردی اور سیکورٹی کو بہتر بنانا ،کنیکٹوٹی نیٹ ورکس کو فروغ دینا،تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی مواقع،موسمیاتی تبدیلی کے مسائل پر بات چیت شامل ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم بہت اہم ہے کیونکہ اس کے 9 رکن ممالک چین، روس، بھارت، ایران، پاکستان اور وسطی ہیں۔

ایشیائی اقوام، جنہیں (وسطی ایشیائی جمہوریہ یس کارز) بھی کہا جاتا ہے، قازقستان، ازبکستان، کرغزستان، اورتاجکستان اور رکن ممالک کے علاوہ ایس سی او کے 17 مبصرین اور ڈائیلاگ پارٹنرز ہیں جو اسے ایک بناتے ہیں۔26 ممالک کی تنظیم رکن ممالک ایک چوتھائی کے ساتھ وسائل سے مالا مال خطہ پر محیط ہیں۔یہ ممالک عالمی تیل کے ذخائر اور بہت سے دوسرے وسائل کے ساتھ دنیا کی 41 فیصد آبادی میں حصہ دار ہیں۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے لیے پاکستان کی اہمیت متعدد عوامل کے باعث اہم ہے۔ اہم جیوسٹریٹیجک پوزیشن کے تناظر میں پاکستان کا اہم جغرافیائی محل وقوع اسے جیوسٹریٹیجک، جغرافیائی سیاست، اورجیو اکنامکس میں رکن ممالک وسطی ایشیائی جمہوریہ (کارز)جو کہ لینڈ لاکڈ ہیں کو خاص طور پر خشکی سے گھرے وسطی ایشیا کے لیے سمندری راستہ فراہم کرنے کا ایک اہم زریعہ ہے۔

اقتصادی امکانات کے تناظر میں اس اجلاس کو دیکھا جائے تو پاکستان وسائل سے مالا مال ملک ہے جس کے قدرتی وسائل، جیسے کوئلہ، گیس، معدنیات وغیرہ،اسے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات کی تلاش و مواقعوںحاصل ہو سکیں گے،رکن ممالک پاکستان کی برآمدات کو مزید بڑھا سکتے ہیں(اگر آزاد تجارت اور ٹیرف کی پالیسیاں ہیں)۔

اس کے نفاذ کے بعد، پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کے اراکین کے لیے ایک ممکنہ مارکیٹ کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ علاقائی سلامتی میں پاکستان کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ،پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پوری تاریخ ہے۔ اس تجربے کے ذریعے پاکستان علاقائی انسداد دہشت گردی کے ڈھانچے (آر اے ٹی ایس )میں ایس سی او کی مدد کر سکتا ہے کیونکہ ایس سی او کے ممبران اس کا شکار ہیں۔

اس سربراہی اجلاس کی میزبانی پاکستان کو اپنے سفارتی تعلقات کو بڑھانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کے ذریعے پاکستان کے درمیان کثیر الجہتی تعاون کو فروغ ملے گا۔انفراسٹرکچر کے علاوہ دیگر شعبوں میں مزید غیر ملکی سرمایہ کاری کو مدعو کرنے کا موقع ملے گا۔ اگرچہ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں میں پاکستان کا حصہ سب سے کم ہے،انفرنس کے ایجنڈے میں پھر بھی یہ موضوع شامل ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک پاکستان نے اس طرف توجہ مبذول کرائی ہے۔یہ اجلاس پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے خطرے پر کافی توجہ مبذول کرنے کا موقع ہے۔ یہ اس بات پر بحثیں ترتیب دے کر کر سکتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کس طرح ترقی کو متاثر کرتی ہے۔