Live Updates

یہ تاثر غلط ہے کہ انہیں وزیراعظم بننے سے روکا گیا، نواز شریف

طے کر لیا تھا کہ اگر انتخابات میں اکثریت نہیں ملی تو میں وزیراعظم کا امیدوار نہیں ہوں گا، عمران خان نے جمہوریت کو سمجھا اور نہ اسکی بہتری کیلئے کچھ کیا، بانی پی ٹی آئی نے میری بات مانی ہوتی تو ہمیں تکالیف نہ اٹھانی پڑتیں، ایسا کچھ نہیں کہنا چاہتا جو مشکلات یا عدم استحکام کا باعث بنے یہ آخری چیز ہے جو میں ملک کیلئے کرنا چاہتا ہوں، سابق وزیراعظم کی پاکستان روانگی سے قبل گفتگو

Faisal Alvi فیصل علوی ہفتہ 16 نومبر 2024 16:25

یہ تاثر غلط ہے کہ انہیں وزیراعظم بننے سے روکا گیا، نواز شریف
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 16نومبر 2024) پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر اور سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ انہیں وزیراعظم بننے سے روکاگیا،طے کر لیا تھا کہ اگر انتخابات میں اکثریت نہیں ملی تو میں وزیراعظم کا امیدوار نہیں ہوں گے،لندن سے پاکستان کیلئے روانگی سے قبل ڈان نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم سے سوال کیا گیا کیا یہ سچ ہے کہ انہیں عہدہ نہ لینے کا کہا گیا؟ نوازشریف نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ کیا آپ واقعی ایسا سمجھتی ہیں؟ یہ ہرگز سچ نہیں ہے اور اس میں کوئی راز نہیں ہے ۔

میں نے طے کر لیا تھا کہ اگر اکثریت نہ ملی تو وزیراعظم کا امیدوار نہیں ہونگا۔جب ان سے پوچھا گیا انتخابی نتائج کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں؟ کیا یہ بڑا دھچکا تھا؟ صدر مسلم لیگ ن نواز شریف نے کہا کہ انتخابی نتائج ان کی توقعات سے کم تر تھے۔

(جاری ہے)

اب میری توجہ اپنی پارٹی کو منظم اور چیزوں کو ٹھیک کرنے پر مرکوز ہے۔ میں پارٹی کو مضبوط بنانے کیلئے مختلف مقامات کا دورہ کروں گا۔

مجھے امید ہے کہ حالات بہتر ہوں گے اور لوگ دیکھیں گے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا دیا ہے۔گفتگو کے دوران نواز شریف نے کہا کہ میں ایسا کچھ نہیں کہنا چاہتا جو مشکلات یا عدم استحکام کا باعث بنے یہ آخری چیز ہے جو میں ملک کیلئے کرنا چاہتا ہوں۔موجودہ حالات میں سیاسی سرمایہ کھونے کے بعد اپنے مستقبل کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر کیا کہ میں نہیں کہہ سکتا کہ مستقبل کیا ہے۔

اب میری ساری توجہ پارٹی کو منظم اور چیزوں کو ٹھیک کرنے پر مرکوز ہے۔نواز شریف نے اس وقت ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کا ذمے دار عمران خان کو قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے جمہوریت کو سمجھا اور نہ اسکی بہتری کیلئے کچھ کیا۔عمران خان نے میری بات مانی ہوتی تو ہمیں تکالیف نہ اٹھانی پڑتیں۔بانی پی ٹی آئی عمران خان کو جمہوریت کو فروغ دینے اور استحکام بخشنے کا سب سے بڑا موقع ملا لیکن انہوں نے جمہوریت کو سمجھا نہ اس کے استحکام کیلئے کچھ کیا۔

مجھے نہیں یاد کہ میں نے عمران خان ایک یا دو مرتبہ سے زیادہ اسمبلی میں دیکھا ہو انہوں نے سارا وقت اسمبلی سے باہر دھرنوں میں گزارا ان کے ارکین اسمبلی نے استعفے دئیے۔گفتگو کے دوران صدر مسلم لیگ ن نواز شریف نے عمران خان کو مورد الزام ٹھراتے ہوئے کہا کہ انہوں نے 35 پنکچر کیس کے نام سے ہمارے خلاف مہم شروع کی جسے اس وقت کے چیف جسٹس ناصر الملک نے اٹھاکر باہر پھینک دیا۔

بانی پی ٹی آئی نے مولانا طاہر القادری سمیت دیگر لوگوں کے ساتھ اتحاد بنایا۔ کیا یہ جمہوریت تھی؟۔موجودہ حکومت میں جمہوری آزادیاں سلب کئے جانے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران خان کی حکومت میں اس سے بھی بدتر صورتحال ہوئی تھی۔میں نے اپنا وقت جمہوریت کے استحکام پرصرف کیا۔ الیکشن جیتنے کے بعد میں عمران خان کے گھر گیا اور انہیں مل بیٹھ کر پاکستانی عوام کی خدمت دعوت دی، انہوں نے مجھے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا لیکن کچھ دن بعد انہوں نے اپنے دھرنے کا اعلان کر دیا۔

نواز شریف نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس کے ذمے دار وہ ہیں۔انہوں نے اگر اس وقت میری بات سنی ہوتی جب میں ان کے گھر گیاتھا تو آج ہم مل کر کام کررہے ہوتے۔نواز شریف نے کہا کہ2013 کے انتخابات کے بعد ان کی پارٹی کو عمران خان کی حمایت کی بالکل بھی ضرورت نہیں تھی لیکن انہوں نے ملک اور جمہوریت کی خاطر عمران خان کی جانب امن کا ہاتھ بڑھایا تھا۔

اگر انہوں نے منصفانہ اور شفاف طریقے سے انتخابات جیتے ہوتے اور ان نظریات پر کام کیا ہوتا، تو ہم مل کر خدمت کر رہے ہوتے لیکن انہوں نے میری بات نہیں سنی اور ہمیں تکلیف اٹھانی پڑی۔سابق وزیراعظم کا خیال ہے کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان آنا چاہیے اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری آئے گی۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ ڈپلومیسی پر یقین رکھتے ہیں؟۔

نواز شریف نے معاملے کی پیچیدہ نوعیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہاکہ پاک بھارت تعلقات کا موضوع منفرد ہے۔کوئی بھی ایماندارانہ جواب کسی بھی ایک فریق کیلئے تکلیف دہ ہوسکتا ہے۔مجھے بردباری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور جارحانہ بیانات سے گریز کرنا ہوگا۔ خطے کا سینئر ترین سیاستدان ہونے کے ناطے میں کوئی غلط فہمی نہیں چاہتا۔بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی دوبارہ کامیابی پر خیرمقدمی پیغام پر بھارتی بے التفاتی سے متعلق سوال پر انہوں نے کہاکہ ہم دونوں ممالک پڑوسی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے، ہمارے تعلقات بہتر ہونے چاہئیں۔

جب مسائل کی بات آتی ہے تو ہمیں دوستانہ ماحول میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے بات کرنی چاہیے اگر کسی ملک سے آپ کے تعلقات بہتر ہوں تو اس کے ساتھ مسائل پر بات کرنا آسان ہوتا ہے۔لیکن اگر آپ ایک دوسرے سے دور رہیں تو مسائل پر بات چیت نہیں کرسکتے۔ اسی لئے میں نے کہا تھا کہ ان کی کرکٹ ٹیم کو پاکستان آنا چاہیے اگر ایسی صورتحال ہوتی کہ ہمیں کھیلنے کیلئے بھارت جانا ہوتا تو میں چاہتا کہ پاکستان وہاں جانے والی پہلی ٹیم ہو۔اس لئے بھارتی ٹیم کو پاکستان جانا چاہیے اس سے تعلقات بہتر ہوں گے۔تاہم جب انہیں بھارت کی جانب سے طویل عرصے سے پاکستان پر عائد کردہ سرحد پر دہشت گردی سمیت دیگر الزامات کا حوالہ دیا گیا تو انہوں نے سادہ سا جواب دیا کہ ہم خود دہشت گردی کا شکار ہیں۔

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات