الیکشن کمیشن نےعازل بازئی کی قومی اسمبلی رکنیت بحالی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا

عازل بازئی کو بطورآزاد امیدوار تصور کیا جائے ، سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں 21 نومبر کا نوٹیفکیشن ختم کردیا گیا ، نوٹیفکیشن

Faisal Alvi فیصل علوی منگل 31 دسمبر 2024 11:42

الیکشن کمیشن نےعازل بازئی کی قومی اسمبلی رکنیت بحالی کا نوٹیفکیشن ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 31 دسمبر 2024)الیکشن کمیشن آف پاکستان نے رکن قومی اسمبلی عازل بازئی کی رکنیت بحالی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا،الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے262 کوئٹہ سے عادل بازئی کی رکنیت بحال کرتے ہوئے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے، جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق عازل بازئی کو بطورآزاد امیدوار تصور کیا جائے، الیکشن کمیشن نے قرار دیا کہ عادل بازئی مسلم لیگ (ن) لیگ کے بجائے آزاد رکن قومی اسمبلی ہوں گے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری نوٹی فکیشن میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے حکم کی روشنی میں 21 نومبر کا نوٹیفکیشن ختم کردیا گیا۔اس فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے این اے 262 میں ضمنی الیکشن بھی روک دیا۔یاد رہے کہ اس سے قبل سپریم کورٹ نے این اے 262 سے عادل بازی کو ڈی سیٹ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا تھا۔

(جاری ہے)

عدالت نے عادل بازی کو بطور رکن قومی اسمبلی بحال کر دیا تھا۔

الیکشن کمیشن عادل بازی کو ڈی سیٹ کرنے کے معاملے پر عدالت کو مطمئن نہ کرسکا تھا۔ سپریم کورٹ نے عادل بازئی کی الیکشن کمیشن کیخلاف اپیل منظور کر لی تھی۔ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائیگا۔ دوران سماعت سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے طریقہ کار پر سوالات اٹھا ئے تھے۔۔ جسٹس عقیل عباسی نے دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھاکہ بس بڑے صاحب کا خط آگیا تو بندے کو ڈی سیٹ کر دو یہ نہیں ہو سکتاتھا۔

جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا تھاکہ عادل بازئی کیس میں حقائق جانچنے کیلئے کمیشن نے انکوائری کیا کی تھی؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایک حلقے کے عوام کو ڈس فرنچائز کرنے کا پیمانہ تو سخت ہونا چاہیے تھا۔ درخواست گزار وکیل سردار تیمور نے کہا تھاکہ ایک دن معاملہ الیکشن کمیشن پہنچا اگلے دن کارروائی شروع کر دی گئی تھی۔ ہم بلوچستان ہائیکورٹ گئے کہ ہمیں متعلقہ دستاویزات تو دیں۔

ہم نے کہا تھاجو ن لیگ سے وابستگی کا بیان حلفی بتایا جا رہا تھا وہ تو ہمیں دیں۔جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ عادل بازئی کیس میں حقائق جانچنے کیلئے کمیشن نے انکوائری کیا کی تھی؟۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے تھے کہ الیکشن کمیشن نے کہہ دیاتھا کہ وہ دستاویز تو سیکرٹ تھی۔ اس دوران عدالت نے ڈی جی لا الیکشن کمیشن کو روسٹرم پر بلا لیاتھا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا تھاکہ کیا یہاں ایڈیشنل اٹارنی جنرل ہیں؟ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا نے بتایا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل اس وقت آئینی بنچ میں تھے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے تھے کہ کسی کو ادھر بھی بھجوا دیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا تھاکہ اگر کوئی فالتو لائافسران ہیں تو انھیں ادھر بھی بجھوا دیا کریں۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا تھاکہ آپ کے پاس دو بیان حلفی آئے تھے۔ ایک جیتنے والا کہہ رہا ہے میرا ہے دوسرا وہ کہتا ہے میرا نہیںتھا۔ آپ نے کس اختیار کے تحت بغیر انکوائری ایک بیان حلفی کو درست مان لیاتھا؟ کیا الیکشن کمیشن یہ کہہ سکتا تھا کہ بس ایک بیان حلفی پسند نہیں آیا دوسرا آگیا؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے تھے کہ عدالتوں اور مجسٹریٹوں کو بھی نہیں مانتے، خود بھی انکوائری نہیں کرتے، کیا الیکشن کمیشن ایسا ٹرائل کرنے کا حق رکھتی تھی؟ ٹرائل کورٹ کی پاور الیکشن کمیشن کے پاس کہاں سے ہیں؟ الیکشن کمیشن نے تو بلڈوزر لگایا ہوا تھا۔

قبل ازیں بھی سپریم کورٹ کے ریگولر بینچ نے عادل بازئی کو ڈی سیٹ کرنے کا 21 نومبر کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیاتھا۔جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی تھی۔