الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاؤ کو ظاہر کیا
عادل بازئی کبھی بھی ن لیگ کے رکن نہیں رہے مگر الیکشن کمیشن نے صرف ن لیگ کے سربراہ کی بات پر یقین کیا، یہ افسوسناک ہے کہ عدالت کے واضح احکامات کے باوجود الیکشن اپنے آئینی فرائض کے برعکس طرزِ عمل اپناتا ہے، عادل بازئی کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ
محمد علی پیر 20 جنوری 2025 23:23
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔ 20 جنوری 2025ء ) عادل بازئی کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاؤ کو ظاہر کیا، عادل بازئی کبھی بھی ن لیگ کے رکن نہیں رہے مگر الیکشن کمیشن نے صرف ن لیگ کے سربراہ کی بات پر یقین کیا، یہ افسوسناک ہے کہ عدالت کے واضح احکامات کے باوجود الیکشن اپنے آئینی فرائض کے برعکس طرزِ عمل اپناتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ایم این اے عادل بازئی کو الیکشن کمیشن کی جانب سے نااہل
قرار دیے جانے کے کیس میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کی
سربراہی میں کیس کی سماعت کرنے والے بنچ نے کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر
دیا۔ جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے تحریر کیے گئے فیصلے میں الیکشن کمیشن
کے کنڈکٹ کے حوالے سے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
(جاری ہے)
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ
الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاؤ کو ظاہر کیا،
عادل بازئی کبھی بھی ن لیگ کے رکن نہیں رہے مگر الیکشن کمیشن نے صرف ن لیگ
کے سربراہ کی بات پر یقین کیا، یہ افسوسناک ہے کہ عدالت کے واضح احکامات کے
باوجود الیکشن اپنے آئینی فرائض کے برعکس طرزِ عمل اپناتا ہے۔ تحریری
فیصلے میں کہا گیا کہ اگر کوئی ممبر پارلیمنٹ منحرف ہوجائے تو اسے شوکاز
نوٹس جاری کرنا ضروری ہے، الیکشن کمیشن یا ٹربیونل پارٹی کے سربراہ کے
ڈیکلریشن کا جائزہ لے کر اس کی تصدیق کرتا ہے، پارٹی ہیڈ کے ڈیکلریشن کا
تنازعہ ہو تو اسے فریقین سول کورٹ میں طے کر سکتے ہیں، الیکشن کمیشن حقائق
کا خود سے جائزہ نہیں لے سکتا۔ تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہم یہ وضاحت
کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس عدالت کی جانب سے 16 فروری 2024 کے رضا مندی
کے حلف نامے کی اصلیت اور قانونی حیثیت کے بارے میں دیا گیا فیصلہ سول
عدالت کے حتمی فیصلے سے مشروط ہے، اپیل کنندہ کی جانب سے جعلی رضا مندی کے
حلف نامے کی تیاری اور اس کے استعمال کے حوالے سے جو الزامات شہباز کے خلاف
لگائے گئے ہیں، ان الزمات کی سنگینی کے پیش نظر ہم توقع کرتے ہیں کہ سول
عدالت ان معاملات کا فیصلہ جلد از جلد کریں گی۔ تحریری فیصلے میں جسٹس
عائشہ ملک نے اضافی نوٹ میں لکھا کہ آئین واضح طور پر یہ بتاتا ہے کہ حکومت
کا اختیار صرف عوام کی مرضی پر مبنی ہے، یہ مرضی عوام کے اپنے حقِ رائے
دہی کے استعمال اور انتخابی و سیاسی عمل میں شرکت کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے،
انتخابات بنیادی طریقہ ہیں جس کے ذریعے رجسٹرڈ ووٹر اپنے نمائندے منتخب
کرتے ہیں، جو ان کی جانب سے حکومت کریں گے اور حکومت کے اختیارات کا
استعمال کریں گے۔ جسٹس عائشہ ملک کے مطابق اس مقدمے کے حقائق ظاہر کرتے ہیں
کہ الیکشن کمیشن عوام کی مرضی کو عملی جامہ پہنانے کی اپنی آئینی ذمہ داری
نبھانے میں ناکام رہا، ان اپیلوں میں اپیل کنندہ قومی اسمبلی کا ایک منتخب
رکن ہے جس کے خلاف آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت انحراف کا ریفرنس دائر کیا
گیا تھا، اس پر الزام لگایا گیا کہ وہ اپنی جماعت، پاکستان مسلم لیگ سے
منحرف ہو گیا۔ تاہم اپیل کنندہ نے اپنی دفاع میں واضح اور غیر مبہم طور پر
کہا کہ وہ این اے 262 کوئٹہ 1 سے ایک آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن جیتا۔
بعد ازاں عادل بازئی نے 20 فروری 2024 کو اپنے حلف نامے کے تحت سنی اتحاد
کونسل میں شمولیت اختیار کی۔ چیئرمین سنی اتحاد کونسل نے 20 فروری 2024 کو
اپنے ایک باقاعدہ خط کے ذریعے الیکشن کمیشن کو اس کی شمولیت کی اطلاع دی۔
درخواست گزار نے 16 فروری 2024 کے حلف نامے کو کبھی جمع نہیں کرایا، جس میں
یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ عادل بازئی نے ن لیگ میں شمولیت اختیار کی۔
درخواست گزار عادل بازئی نے حلف نامہ جعلی اور من گھڑت ہونے کے بارے میں
ایک سول مقدمہ اور فوج داری شکایت درج کرائی، سول مقدمے میں مذکورہ حلف
نامہ 2 نومبر 2024 کو سینئر سول جج-1، کوئٹہ نے معطل کر دیا اور فوجداری
شکایت میں، ایس ایچ او کی رپورٹ کی بنیاد پر مذکورہ حلف نامے کو جعلی اور
من گھڑت قرار دیا گیا۔ چونکہ اپیل کنندہ کا پورا کیس اس بات پر مبنی تھا کہ
وہ کبھی بھی ن لیگ کا امیدوار یا رکن نہیں رہا اس لیے جب انحراف کا معاملہ
سامنے آیا تو الیکشن کمیشن نے اپیل کنندہ کے پیش کردہ کسی بھی ثبوت کو نہ
تو دیکھا اور نہ ہی 16 فروری 2024 کے حلف نامے کے حوالے سے اس کے موقف پر
غور کیا۔ سربراہ ن لیگ کی بات کو الیکشن کمیشن نے بغیر کسی جانچ پڑتال کے
قبول کرلیا اور اور اس بنیاد پر کارروائی کی، اس عمل نے اپیل کنندہ کے
انصاف اور شفاف سماعت کے حق کی خلاف ورزی کی اور ان لوگوں کے حقِ رائے دہی
کی بھی خلاف ورزی کی جنہوں نے اپیل کنندہ کو ووٹ دیا، یہ اقدامات ظاہر کرتے
ہیں کہ الیکشن کمیشن نے ایک سیاسی جماعت اور حکومت کے حق میں جھکاؤ ظاہر
کیا۔ اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ جو الیکشن کمیشن کے آئینی فرائض اور آئین کے
دیے گئے معیارات کی خلاف ورزی ہے کہ وہ ایمانداری، انصاف اور غیرجانبداری
سے کام کرے۔ عدالت الیکشن کمیشن کو یاد دلاتی ہے کہ انتخابات جمہوریت کے
لیے ریڑھ کی ہڈی ہیں اور الیکشن کمیشن انتخابی دیانتداری کا ضامن ہے،
الیکشن کمیشن کی آزادی انتخابات کےعمل کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے، بصورت
دیگر جمہوریت کی بنیادیں متزلزل ہو جاتی ہیں۔ الیکشن کمیشن کو سیاسی اثر و
رسوخ یا سیاسی انجینئرنگ کے تابع نہیں ہونا چاہیے بلکہ جمہوریت کا غیرجانب
دار محافظ رہنا چاہیے، حکومت کے حق میں الیکشن کمیشن کا جھکاؤ سیاسی نظام
کی قانونی حیثیت کو متاثر کرے گا۔