Live Updates

پی ٹی آئی کے اعلان اور وزیراعظم کی پیشکش مسترد کرنے کے بعد حکومت نے بھی مذاکراتی عمل ختم کر دیا ہے، سینیٹر عرفان صدیقی

-عمران خان اور دیگر کی رہائی کا واحد راستہ یہی ہے کہ پی ٹی آئی وزیراعظم سے کہے وہ صدر کو ان کی سزا معاف کرنے کی سفارش کریں ،عمران خان، شاہ محمود قریشی، عمر چیمہ، اعجاز چوہدری، یاسمین راشد اور محمود الرشید کا نام لے کر رہائی کا مطالبہ کیا گیا ًپی ٹی آئی نے یہ نام لکھے نہیں لیکن بول کر کہا کہ آپ ان کی رہائی میں سہولت کاری کریں پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں بہت سے مطالبات ایسے تھے جن کی بنیاد پر اعتماد سازی ہو سکتی تھی،ان میں بہت سے پر ہم نے غور کر لیا تھا yجوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے مطالبے پر 'ریڈ کراس' نہیں لگایا تھا وزیراعظم سے بات کی ہے کہ صحافیوں کی بات سن کر ان کے تحفظات ختم کرتے ہوئے قانون میں ترمیم کرنی چاہیے

جمعہ 31 جنوری 2025 20:30

-اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 31 جنوری2025ء)پاکستان تحریک انصاف کے مذاکراتی عمل سے باہر نکلنے اور وزیراعظم کی جانب سے دوبارہ بات چیت کی پیشکش کو مسترد کیے جانے پر حکومت نے بھی مذاکراتی عمل ختم کر دیا ہے۔حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے لیے حکومتی کمیٹی کے ترجمان اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے تصدیق کی کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔

تحریک انصاف والے جس تیزی کے ساتھ مذاکرات کے لیے آئے تھے اسی تیزی سے واپس چلے گئے ہیں۔ ان کا واحد اور حقیقی مطالبہ عمران خان اور دیگر رہنماؤں کی فوری رہائی تھی جس کا راستہ یہی ہے کہ وہ وزیراعظم سے کہیں کہ وہ صدر کو ان کی سزا معافی کی سفارش کریں۔ سعودی عرب کے ممتاز اخبار (اٴْردو نیوز) کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ’مذاکرات میں اس وقت نہ تعطل ہے اور نہ ہی کوئی بریک ڈاؤن ہے۔

(جاری ہے)

یہ ختم ہو چکے ہیں۔ وزیراعظم کی پیشکش کے باوجود ان کی طرف سے جو جوابات آئے ہیں وہ آپ کے سامنے ہیں۔ آج 31 جنوری ہے۔ ان کی جانب سے جو ڈیڈ لائن دی گئی تھی وہ بھی آ چکی ہے، انھوں نے اپنی کمیٹی بھی تحلیل کر دی ہے تو اب یہ ختم ہو چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں بہت سے مطالبات ایسے تھے جن کی بنیاد پر اعتماد سازی ہو سکتی تھی۔

ان میں بہت سے پر ہم نے غور کر لیا تھا۔جوڈیشل کمیشن بنانے کے مطالبے پر بھی 'ریڈ کراس' نہیں لگایا تھا۔ ہمارے وکلائ کا مشورہ تھا کہ جب معاملات عدالتوں میں ہوں تو اس پر جوڈیشل کمیشن نہیں بن سکتا۔ اس کے باوجود ہم نے دو ٹوک جواب دینے کے بجائے یہ سوچا تھا کہ ہم یہ جواب دیں گے کہ ہمارے وکلائ کی یہ رائے ہے آپ اپنے وکلائ کو بلا لیں جو اپنی رائے دیں۔

ہمیں قائل کریں اور ہم مل کر بیچ کا کوئی راستہ نکال لیں گے۔ عرفان صدیقی نے کہا کہ اعتماد سازی کے حوالے سے بھی ہم نے اور بھی بہت سی چیزوں پر کام کر لیا تھا‘ تاہم، جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اقدامات کیے گئے، عرفان صدیقی نے بتایا کہ ’وہ ابھی تک خفیہ ہیں اور اگر وہ سامنے آنا تھے تو تحریک انصاف کے ذریعے ہی سب تک پہنچنا تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے جو دستاویز تیار کی تھی وہ حرفِ آخر بھی نہیں بلکہ اس کو ورکنگ پیپر کا نام دیا گیا تھا جس کی تراش خراش ممکن تھی اور اگر وہ آتے اور بیٹھتے تو ان کے لیے اس میں کئی ایک اطمینان بخش چیزیں تھیں۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر پی ٹی آئی کے ڈی این اے اور خمیر میں مذاکرات، بات چیت اور لین دین شامل ہی نہیں۔ وہ سڑکوں، چوراہوں، ڈنڈوں، غلیلوں، 9 مئی، 26 نومبر اور تشدّد کے لیے بنی ہے۔ انھوں نے جب جب بھی مذاکرات کیے وہاں سے ایسے ہی نکلے۔ 28 جنوری کی صبح تک تو ہم کام کر رہے تھے۔ پی ٹی آئی نے چھ دن پہلے کہا کہ عمران خان نے کہہ دیا ہے تو اب مذاکرات نہیں ہوں گے۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے بتایا کہ کمیٹی میں پی ٹی آئی نے عمران خان، شاہ محمود قریشی، عمر چیمہ، اعجاز چوہدری، یاسمین راشد اور محمود الرشید کا نام لے کر رہائی کا مطالبہ کیا۔ یہ نام لکھے نہیں لیکن بول کر کہا کہ آپ ان کی رہائی میں سہولت کاری کریں۔ اس کے علاوہ انھوں نے دیگر قیدیوں کی رہائی کا بھی کہا۔ یہ ان کا واحد مطالبہ تھا، جوڈیشل کمیشن اور دیگر باتیں بے معنی اور ثانوی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ واحد حل یہ ہے کہ تحریک انصاف آئے اور وزیراعظم سے کہے کہ وہ صدر کو سفارش کریں کہ ان کی سزائیں معاف کر دی جائیں تو شہباز شریف صدر زرداری کو یہ کہہ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کی رہائی کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف پاکستان کی تاریخ کا ایک منفرد عجوبہ ہے۔ یہ 'خان نہیں تو پاکستان نہیں' کے نعرے کی عملی تصویر ہے جو افسوسناک ہے۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات