مہران یونیورسٹی میں توانائی، ماحولیات اور پائیدار ترقی کے عنوان سے منعقد کی جانے والی ساتویں عالمی کانفرنس کی افتتاحی تقریب کا انعقاد

بدھ 19 فروری 2025 17:24

حیدرآباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 19 فروری2025ء) مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورو کی جانب سے توانائی، ماحولیات اور پائیدار ترقی کے عنوان سے منعقد کی جانے والی ساتویں عالمی کانفرنس کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے توانائی کے شعبے کے ماہر انجینئر عرفان احمد نے کہا کہ توانائی کی ماحول دوست منتقلی ہو رہی ہے، بجلی ہوا اور شمسی توانائی سے بنائی جا رہی ہے،سندھ میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے زیادہ ہیں اور ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی سستی بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر آلات پاکستان میں بنیں تو منصوبوں پر خرچ کم ہو جائے گا کیونکہ اس وقت بیشتر آلات بیرون ملک سے خریدے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں قدرتی اور فطری طریقوں سے ماحول دوست توانائی پیدا کرنے کے ذرائع اور وسائل بہت زیادہ ہیں لیکن ہم ان کا بہتر استعمال نہیں کر رہے ۔

(جاری ہے)

انجینئر عرفان احمد نے کہا کہ ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کے لیے سامان بیرون ملک سے خریدنے کی وجہ سے وہ مہنگے پڑتے ہیں،شمسی توانائی کے پینلز کے لیے ہمیں مقامی لوگوں کو تربیت دینی ہوگی تاکہ گاؤں کے لوگ خود پینلز تیار کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں بھی سندھ کے 12 ملین افراد بجلی کی سہولت سے محروم ہیں۔ چائنیز اکیڈمی آف سائنسز چین کے پروفیسر ڈاکٹر پینگ وینگ نے کہا کہ چین اور پاکستان کو معاشی، توانائی، ماحولیات اور ٹیکنالوجی کے امور پر تعاون بڑھانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی ایک بڑا مسئلہ ہے جسے مل کر دیکھنا ضروری ہے اور ہماری اکیڈمی مہران یونیورسٹی کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔

نیو کیسل یونیورسٹی برطانیہ کے پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد اوڈھانو نے کہا کہ یہ کانفرنس سندھ صوبے میں ہو رہی ہے اور سندھ نے ماحولیاتی تباہیوں کا زیادہ سامنا کیا ہے۔ کانفرنس کے سربراہ اور مہران یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اسلم عقیلی نے کہا کہ مہران یونیورسٹی کا انرجی اور انوائرنمنٹل انجینئرنگ ریسرچ گروپ 2009 میں تشکیل پایا، جس نے اس موضوع پر پہلی کانفرنس منعقد کی۔

انہوں نے کہا کہ اس گروپ نے تحقیق کے شعبے کے بہترین طلباء پیدا کیے ہیں۔ ڈاکٹر محمد اسلم عقیلی نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی ماحول کو دیکھتے ہوئے غیر ملکی سکالرز کم آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت شمسی توانائی ایک بڑی حقیقت ہے اور شمسی توانائی اور ہوا سے پیدا ہونے والی بجلی کے چھوٹے بڑے منصوبے لگ رہے ہیں جن سے ملک میں توانائی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ایسی کانفرنسوں میں علم اور معلومات کا تبادلہ ہوتا ہے اور ایک دوسرے کو سننے کا موقع ملتا ہے۔ توانائی کے شعبے کے ڈائریکٹر انجینئر محفوظ احمد قاضی نے کہا کہ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق 2050 تک ہمارے لیے خوراک کا مسئلہ بڑا مسئلہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ جھمپیر میں توانائی کے بہترین منصوبے چل رہے ہیں جو بڑھ رہے ہیں اور ملک میں ماحول دوست بجلی پیدا کرنے کے لیے ورلڈ بینک کا تعاون بڑھ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سندھ صوبے کی 50 عمارتوں پر شمسی توانائی کے منصوبے لگائے ہیں اور کراچی میں سولر پارک بنائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تھر کے کوئلے سے بجلی پیدا ہو رہی ہے لیکن اس کے ماحولیاتی مسائل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گھریلو استعمال ہو یا صنعتی اداروں کا، وہ جلد ہی ماحول دوست توانائی پر منتقل ہو رہے ہیں۔ سی ایس ایس پی پاکستان کے سربراہ نور احمد بجیر نے کہا کہ درجہ حرارت بڑھ رہا ہے اور فاسل فیول کا استعمال کم کیے بغیر زمین رہنے کے قابل نہیں رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ پائیدار حل اور خیالات کے تبادلے کے لیے یہ کانفرنسیں سیکھنے اور سننے کے بہترین مواقع ہیں۔ کانفرنس کے منتظم پروفیسر ڈاکٹر شیراز احمد میمن نے کہا کہ دنیا بھر کے محققین، ماہرین اور رہنماؤں کی اس کانفرنس میں شرکت ماحولیاتی تبدیلیوں، وسائل کے استعمال اور پائیدار ترقی کے اہداف پر گفتگو میں نئے راستے کھولے گی اور یہ کانفرنس پاکستان کو درپیش موجودہ ماحولیاتی اور توانائی کے مسائل کے حل کے لیے مؤثر ثابت ہوگی۔

مہران یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر طحہ حسین علی نے کہا کہ کانفرنس میں پیش کی جانے والی سفارشات اور تجاویز مسائل کے حل کے لیے ہوں، مسائل کی نشاندہی کرنے والی ہوں، اور ایسی سفارشات ہوں جو حکام تک پہنچا کر ان سے مسائل کے حل کے لیے مطالبہ کیا جا سکے۔ وائس چانسلر نے کہا کہ مقامی آبادی کے مسائل کے حل کے لیے سفارشات ہونا ضروری ہیں جبکہ تحقیق صرف محقق کی ترقی کے لیے نہ ہو بلکہ وہ لوگوں کے کام کی بھی ہو۔ دو دنوں کی اس کانفرنس میں پاکستان، چین اور ہندوستان کے توانائی اور ماحولیاتی شعبوں کے ماہرین نے اپنے تحقیقی مقالے پیش کیے۔ کانفرنس میں برطانیہ اور چین کے سکالرز نے شرکت کی اور خصوصی خطاب کیا۔