Live Updates

حکومت کو سیاسی حل کیلئے پی ٹی آئی کودوبارہ مذاکرات کیلئے بٹھانا چاہئے

سیاسی استحکام کے بغیرمعاشی استحکام ایک خواب ہی ہوسکتا ہے، پی ٹی آئی کو قومی سلامتی میٹنگ میں شرکت کرنی چاہئے، حکومت کو پی ٹی آئی کا عمران خان سے مشاورت کرنے کا مطالبہ ماننا چاہئے۔ سابق وزیر اسد عمر

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعرات 27 مارچ 2025 22:00

حکومت کو سیاسی حل کیلئے پی ٹی آئی کودوبارہ مذاکرات کیلئے بٹھانا چاہئے
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ آئی پی اے ۔ 27 مارچ 2025ء ) سابق وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا ہے کہ حکومت کو سیاسی حل کیلئے پی ٹی آئی کودوبارہ مذاکرات کیلئے بٹھانا چاہئے ، سیاسی استحکام کے بغیرمعاشی استحکام ایک خواب ہی ہوسکتا ہے،پی ٹی آئی کو قومی سلامتی میٹنگ میں شرکت کرنی چاہئے،حکومت کو پی ٹی آئی کا عمران خان سے مشاورت کرنے کا مطالبہ ماننا چاہئے۔

ہم نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب تک ملک میں سیاسی استحکام نہیں آتا تب تک معاشی استحکام ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔ کے پی اور بلوچستان کے اس حالات ہیں اور جو دہشتگردی کی وہاں ہورہی ہے، اس میں تفریق کروں گا، خیبرپختونخواہ میں ایسی سیاسی جماعتیں ہیں جن کی عوام میں روٹس ہیں، عوام اور ریاست کے درمیان جو رشتہ باندھتے ہیں وہ لیڈرز اور سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔

(جاری ہے)

اس کے برعکس بلوچستان کی صورتحال ہونے میں ایک طویل عرصہ شامل ہے، وہاں صرف اقتدار کی بات ہوتی رہی، وہاں عوام کے ساتھ لیڈرز کا کوئی سیاسی رشتہ نہیں ہے۔ایسی صورتحال نہیں ہے کہ پی ٹی آئی دہشتگردی کو دہشتگردی اور دہشتگردوں کو دہشتگرد نہیں مانتی، پی ٹی آئی سمجھتی ہے کہ دہشتگردی کے مسئلے کا حل افغان طالبان کی معاونت کے بغیر ممکن نہیں۔

اسد عمر نے کہا کہ طالبان کو واپس لانے کی پالیسی اس وقت کی سیاسی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی تھی، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر تھی، ڈی جی آئی نے بریفنگ دی تھی اور آرمی چیف سوالات کے جوابات دینے کیلئے بیٹھے ہوئے تھے۔ اتفاق رائے تھا کہ ان کے ساتھ کب تک لڑتے رہیں گے ، 5 ، 6 ہزار جنگجو تھے اور ان کے خاندان کے لوگ ملا کر 35ہزار تک بنتے ہیں، ری سیٹلمنٹ کی گئی تھی کہ یہ ہتھیار رکھ دیں اور پاکستان کے آئین کو تسلیم کرلیں۔

پارلیمانی میٹنگ میں مسلم لیگ ن کی جانب سے ایک آواز بھی افغان جنگجوؤں کوواپس لانے کیخلاف سننے کو نہیں ملی تھی، ایک دو اپوزیشن رہنماؤں نے کہا تھا کہ حکمت عملی پر غور کیا جائے۔اس پالیسی پر عملدرآمد وزیراعظم شہبازشریف کی حکومت میں ہوا تھا، یہ پالیسی 2021کے آخری ہفتوں میں بنی اور مارچ 2022میں تحریک عدم اعتماد آجاتی ہے، اس پالیسی کیخلاف شہبازشریف کو وزیراعظم بنتے ہی آواز اٹھانی چاہیئے تھی۔

آئندہ پالیمانی میٹنگ میں تمام جماعتوں کو سوالات اور خدشات کا اظہار کرنے کا موقع دینا چاہئے ،پی ٹی آئی کو اجلاس میں بالکل شرکت کرنی چاہئے، پی ٹی آئی کا عمران خان سے مشاورت کرنے کا مطالبہ ماننا چاہئے، اگر عمران خان کہتے ہیں کہ ہمیں شرکت نہیں کرنی چاہیئے پھر ان کا غلط فیصلہ ہوگا، لیکن کم ازکم پی ٹی آئی رہنماؤں کو بانی سے ملاقات کرنے کی اجازت ملنی چاہیئے۔پی ٹی آئی میں اس وقت تقسیم زیادہ ہوگئی ہے، حکومت کو سیاسی حل کیلئے پی ٹی آئی کودوبارہ مذاکرات کیلئے بٹھانا چاہئے ۔
Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات