ڈاکٹرماہ رنگ و بیبو و ودیگر کی علم و فہم و جرات و بے باکی و پرامن علم ایک انقلاب کا پیش خیمہ ہے ، امان اللہ کنرانی

بدھ 9 اپریل 2025 21:48

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 09 اپریل2025ء) سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے گزشتہ روز اسلام آباد میں صحافیوں سمیت مختلف دانشوروں کالم نگاروں و اینکر پرسن سے الگ الگ گفتگو کرتے ہوئے ملکی و علاقائی صوبے کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کوئی اچھنبے یا کوئی نئی بات نہیں پاکستان بننے سے آج تک گزشتہ 78 سالوں میں میجر جنرل اسکندر مرزا،غلام محمد سے لیاقت علی خان تک کوئی بھی منتخب نمائندہ نہیں تھا براہ راست اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول سے پاکستان کا آغاز ہوا جنھوں نے روز اول سے بانی پاکستان قائداعظم کو الگ تھلگ رکھ کر سب سے پہلے خیبر پختون خواہ کی منتخب صوبائی اسمبلی پر وار کیااور پھر بنگال کی صوبائی اسمبلی کو روندا،اس کی بہن کو پاکستانی عوام و سیاستدانوں کی امنگوں ووٹوں کے برعکس شکست کا ڈرامہ رچا کر بالآخر موت کے گھاٹ اتار دیا پھر ربع صدی میں پہلی بار بالغ رائے دہی کے نتائج کو بالائے طاق رکھ کر ملک میں ذوالفقار علی بھٹو کی اقلیتی حکومت مسلط کردی گئی پاکستان گنوادیا عوامی منڈیٹ نہیں مانا جیسے آج بھی عوام و سپریم کورٹ بھی 2024 کے عام انتخابات کے نتائج کو عوامی خواہشات کے مطابق موثر بنانے میں ناکامی رہی جس کی بنا پر کٹھ پتلی حکومتیں گذشتہ ایک سال سے وفاق و صوبوں میں عوام کو جونک کی طرح چوس کر وسائل و ملک کو چوہے کی طرح کھوکھلا کررہی ہیں صوبائی حکومتوں و بلوچستان کا کردار اپنی اپنی جگہ مگر وہ سب وفاق کی بے راہ روی اور زوآوری کا شکار ہیں تاہم صوبائی حکومت صوبہ میں چنگاری کو آگ میں تبدیل کرنے میں مصروف عمل ہے کیونکہ ان کا وجود ایک مضمحل بلوچستان سے مربوط ہے توانا بلوچستان مضبوط وفاق و کمزور مرکز ان کی درد کی دوا نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ مسائل کا ادراک کرتے ھوئے مجموعی حل کیلئے ماضی کی غلطیوں سے پاک بالکل 360 ڈگری پر معاملات کو بہتر بنانے کیلئے اقدامات کئے جائیں اب صرف اسٹیبلشمنٹ کو دوش دینے سے معاملہ نہیں بنے گا اس حمام میں سب ننگے ہیں اس میں وہ سہولت کار بھی شامل ہیں جو ان کے احکامات کی بجا آوری میں عوام کے سامنے کھڑے کردئیے جاتے ہیں ان ریت کے گھروندوں و محلاتی سازشوں کا بھی قلع قمع کرکے نئی نسل کی خواتین و مردوں کو موقع فراھم کیا جانا وقت کی پکار ہے پرانے پاکستان و پرانے آزمودہ مردو خواتین کو جو نمائشی کردار دیا گیا ہے اس کو گوادر کی طویل سمندر کے موجوں کے حوالے کیا جائے اب ڈاکٹر ماہ رنگ و بیبو و بیبرگ و شاہ جی صبغت اللہ ، سمی دین و گل زادی کے گل زادی کی طرح علم و فھم و جرات و بے باکی و پرامن علم ایک انقلاب کا پیش خیمہ ہے جس صوبے میں روایتی قبائلی شخصیت پرستی و مال و زر پرستی و دھونس طاقت و مذھبی رجحانات کو خاطر میں لائے بغیر انھوں نے اپنی معصومانہ صلاحیتوں کے استعمال سے عوام کو براہ راست ھم آہنگ کرلیا ضرورت اس امر کی ہے عوام کے سامنے بند باندھنے کی بجائے معاشرے میں مبارزے و امن کو کردار ادا کے راستے کو ھموار کیا جائے دشواریوں کا خاتمہ کیا جائے بھاء چارے بقائے باھمی کے بین لاقوامی انسانی اصولوں کی پاسداری کی جائے۔