اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 اپریل 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز ایران کو دھمکی دیتے ہوئے کہا، ''اگر فوجی کارروائی کی ضرورت پڑی تو ہم فوج استعمال کریں گے۔ اسرائیل اس میں یقیناً بہت زیادہ ملوث ہو گا اور وہ اس کی قیادت کرے گا۔ لیکن کوئی ہمیں نہیں چلاتا، ہم وہی کرتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ وہ مذاکرات کے نتائج کے لیے کوئی حتمی ٹائم لائن نہیں رکھتے لیکن ان کا خیال ہے کہ ''مذاکرات اچھے طریقے سے آگے نہیں بڑھ رہے۔
‘‘اسرائیل کا موقف اور ماضی کے تنازعات
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے رواں ہفتے صدر ٹرمپ کی سفارتی کوششوں کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل اور امریکہ کا مشترکہ مقصد ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنا ہے۔
(جاری ہے)
نیتن یاہو، جو ایران کے حوالے سے سخت گیر موقف کے لیے جانے جاتے ہیں، نے سن 2003 میں لیبیا کے معاہدے کی طرز پر ایک سفارتی سمجھوتے کا خیرمقدم کیا، جس کے تحت لیبیا نے اپنا خفیہ جوہری پروگرام مکمل طور پر ختم کر دیا تھا۔
نیتن یاہو نے مزید کہا، ''یہ اچھا ہو گا لیکن جو بھی ہو، ہمیں یقینی بنانا ہے کہ ایران کے پاس جوہری ہتھیار نہ ہوں۔‘‘
تاہم ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام، جو عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سامنے تسلیم شدہ ہے، جاری رہنا چاہیے۔ ایران کے مطابق وہ جوہری ہتھیار نہیں بنانا چاہتا اور اس کا جوہری پروگرام 'پرامن مقاصد‘ کے لیے ہے۔
سن 2015 میں امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں نے ایران کے ساتھ ایک جامع جوہری معاہدہ کیا تھا، جس کے تحت ایران کی یورینیم افزودگی محدود کی گئی تھی اور بدلے میں اقتصادی پابندیاں اٹھائی گئی تھیں۔ لیکن سن 2018 میں ٹرمپ نے اس معاہدے سے یکطرفہ طور پر دستبرداری اختیار کی اور اسے ''بدترین معاہدہ‘‘ قرار دیا۔ اس کے بعد سن 2021 میں صدر جو بائیڈن کے دور میں ویانا میں ایران کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات ہوئے، لیکن وہ ناکام رہے۔
نئی پابندیاں اور ایران کا جواب
بدھ کو امریکی محکمہ خزانہ نے ایران کے جوہری پروگرام پر نئی پابندیاں عائد کیں، جن میں ایران کی ایٹمی توانائی تنظیم اور اس سے منسلک ایران سینٹری فیوگ ٹیکنالوجی کمپنی، تھوریم پاور کمپنی، پارٹس ری ایکٹرز کنسٹرکشن اینڈ ڈیویلپمنٹ کمپنی جیسے ادارے شامل ہیں۔
ادھر، ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے ایک بار پھر زور دیا کہ ان کا ملک ''جوہری بم کے پیچھے نہیں ہے‘‘ اور اگر دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ ہو جائے تو وہ امریکی سرمایہ کاری کے لیے ایران کے دروازے کھول سکتے ہیں۔
تہران میں اپنی تقریر میں انہوں نے کہا، ''امام خامنہ ای کو امریکی سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری سے کوئی اعتراض نہیں۔ امریکی سرمایہ کار آئیں اور سرمایہ لگائیں۔‘‘ یہ بیان سن 2015 کے معاہدے کے بعد ایران کے اس موقف سے مختلف ہے، جب تہران نے امریکی طیاروں کی خریداری کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن امریکی کمپنیوں کے داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔مذاکرات کا مستقبل
امریکہ کو خدشہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار سازی کے قریب ہے۔ ٹرمپ نے کہا، ''میں چاہتا ہوں کہ ایران ترقی کرے، لیکن انہیں جوہری ہتھیار نہیں مل سکتے۔‘‘ دوسری طرف عمان میں ہونے والے مذاکرات کے نتائج غیر یقینی ہیں۔ ٹرمپ نے کہا کہ آئندہ ویک اینڈ پر طے شدہ مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار ان کی پیشرفت پر ہے، لیکن ان کا ''احساس‘‘ ہے کہ حالات سازگار نہیں۔
ادارت: کشور مصطفیٰ