سندھ ہائیکورٹ،عدالتوں میں سہولتوں کے فقدان اور مسائل سے متعلق درخواستوں پر چیف سیکریٹری، آئی جی سندھ، میئر کراچی نے فوکل پرسنز مقرر کر دیئے

منگل 29 اپریل 2025 17:33

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 اپریل2025ء)سندھ ہائیکورٹ کے آئینی بینچ میں سٹی کورٹ اوردیگر عدالتوں میں سہولتوں کے فقدان اور سیکیورٹی کے مسائل سے متعلق درخواستوں پر چیف سیکریٹری، آئی جی سندھ، میئر کراچی اور دیگر نے فوکل پرسنز مقرر کر دیئے جبکہ کراچی بار اور ہائیکورٹ بار کی جانب سے تاحال فوکل پرسنز نامزد نہیں کیئے گئے۔

منگل کو سندھ ہائیکورٹ کے آئینی بینچ میں سٹی کورٹ اوردیگر عدالتوں میں سہولتوں کے فقدان اور سیکیورٹی کے مسائل سے متعلق اختر حسین، ضیا اعوان ایڈووکیٹ اور دیگر وکلا کی درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ چیف سیکریٹری، آئی جی سندھ، میئر کراچی اور دیگر نے فوکل پرسنز مقرر کر دیئے۔ کراچی بار اور ہائیکورٹ بار کی جانب سے تاحال فوکل پرسنز نامزد نہیں کیئے گئے۔

(جاری ہے)

اختر حسین ایڈووکیٹ نے یقین دہانی کرائی کہ یہ ایسوسی ایشنز رواں ہفتے میں فوکل پرسنز نامزد کردیں گی۔ عدالت نے 6 مئی کو ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی صدارت میں اجلاس کی ہدایت کردی۔ جسٹس آغا فیصل نے ریمارکس میں کہا کہ اجلاس کا بنیادی ایجنڈا موجودہ مالی سال میں حاصل کی جانیوالی سہولیات کی نشاندھی ہوگا۔ عدلیہ میں مسائل ہیں انہیں حل کرنے کے لیے وکلا اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر آنا ہوگا۔

وکلا کے بغیر ہم کچھ نہیں کرسکتے وہ ہمارے بغیر نہیں چل سکتے۔ ضیا اعوان ایڈوکیٹ نے موقف دیا کہ وکلا کی تقسیم کسی صورت منظور نہیں کی جائیگی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ وکلا کو تقسیم نہیں کرنا چاہتے لیکن موجودہ سٹی کورٹ صرف 12 ایکڑ زمین پر ہے۔ اب اس جگہ نیا انفرا اسٹرکچر تیار نہیں کیا جاسکتا ، تاہم فوری سہولیات پر کام ہوسکتاہے۔ جسٹس آغا فیصل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فریقین کسی نئی جگہ کی نشاندھی کریں جہاں نیا انفرا اسٹرکچر تیار کیا جاسکے۔

سرکاری وکیل نے موقف دیا کہ کورنگی میں وسیع رقبے پر عدالتیں قائم کی گئی ہیں ہیں، فوری طور پر کچھ عدالتیں منتقل کی جاسکتی ہیں۔ درخواستگزار نے موقف دیا کہ یہ سوچ مسائل پیدا کرتی ہے، وکلا تقسیم قبول نہیں کرینگے۔ ضیا اعوان ایڈووکیٹ نے موقف دیا کہ لاہور میں بھی تحصیل کی سطح پر عدالتوں کی تقسیم کا فارمولا ناکام ہوگیا ہے۔ نئے چیف جسٹس نے دوبارہ سنٹرلائزڈ کمپلیکس بنانے کی تجویز دی ہے۔

کراچی میں بھی کسی سینٹرلائزڈ مقام پر عدالتی کمپلیکس تعمیر کیا جائے۔ جسٹس آغا فیصل نے ریمارکس دیئے کہ اولڈ سٹی ایریا میں اب کوئی گنجائش نہیں رہی۔ تاہم سٹی کورٹ کے لیے فوری طور پر ایسے اقدامات کیئے جائیں جن سے امپروو منٹ نظر آئے۔ ٹریفک، سیکیورٹی، صحت و صفائی کے انتظامات کیلیے بہت زیادہ مالی وسائل درکار نہیں۔ انتظامی طور پر بھی ان امور میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔

تمام اسٹیک ہولڈرز 6 مئی کے اجلاس سے قبل ایک دوسرے کو اپنے پروپوزل دیدیں۔ 6 مئی کے اجلاس میں طے کیئے گئے روڈ میپ سے آئندہ سماعت 14 مئی کو آگاہ کیا جائے۔ دائر درخواستوں میں موقف اپنایا گیا تھا کہ سٹی کورٹ ایک مچھلی مارکیٹ لگتا ہے وہاں کوئی سہولیات نہیں ہیں۔ اگر خدا نخواستہ بھگڈر مچ جائے تو نکلنے کا راستہ نہیں ہے۔ جہاں ٹوائلٹ تھے وہاں کورٹ یا جج بیٹھے ہوئے۔

سٹی کورٹ میں سائلین ،عدالتی عملے ،وکلا اور خواتین وکلا کے مسائل ہیں۔معذوروں کے لیے کوئی الگ سے راستہ نہیں ہے۔ عدالتوں کی لفٹ ہیں بھی تو خراب ہیں۔ سٹی کورٹ میں درپیش 20 مسائل کی درخواست میں نشان دہی کی گئی ہے۔ سٹی کورٹ میں پینے کا صاف پانی نہیں ہے نا ہی کسی فلور پر کوئی ٹوائلٹ ہیں۔ سٹی کورٹ میں نا ہی کوئی پارکنگ کا انتظام ہیلاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس نے ایک ہی جوڈیشل کمپلیکس بنانے کا اعلان کیا ہے۔جیل کی جگہ پر جوڈیشل کمپلیکس بنایا جائے اور جیل کو شہر سے باہر شفٹ کیا جائے۔ ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے جو پیسے دئیے تھے وہ بلڈنگوں پر لگ گئے ہیں۔ 80 فیصد کیسز کی سماعت ڈسٹرکٹ کورٹس میں ہوتی ہے۔