سرینگر (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 مئی2025ء) مقبوضہ جموں و کشمیر دنیا کے ان خطرناک ترین مقامات میں شامل ہے جہاں صحافت اور ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد مشکل ترین حالات میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔آج ”آزادی صحافت کے عالمی دن“ پرکشمیرمیڈیاسروس کے ایڈیٹر رئیس احمد میر کی مرتب کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں 1989سے اب تک کم از کم20صحافی اپنے پیشہ فرائض کی انجام دہی کے دوران قتل کیے گئے ۔
قتل کئے جانے والے صحافیوں میں شبیر احمد ڈار، مشتاق علی، محمد شعبان وکیل، خاتون صحافی آسیہ جیلانی، غلام محمد لون، غلام رسول آزاد، پرویز محمد سلطان، شجاعت بخاری، علی محمد مہاجن، سید غلام نبی، الطاف احمد فکتو، سیدان شفیع، طارق احمد، عبدالمجید بٹ، جاوید احمد میر، پی این ہنڈو، محمد شفیع، پردیپ بھاٹیہ، اشوک سودھی اور رئیس احمد بٹ شامل ہیں۔
(جاری ہے)
2019 میں دفعہ370 کی منسوخی کے بعد سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں پریس کی آزادی میں تیزی سے کمی آئی ہے، مقامی صحافیوں کو کالے قوانین کے تحت ہراساں کیے جانے، نگرانی اور الزامات کا سامنا ہے، جب کہ غیر ملکی نامہ نگاروں کو مقبوضہ علاقے تک رسائی نہیں دی جا رہی۔ تنقیدی رپورٹنگ پر انہیں مقبوضہ علاقے سے چلے جانے پر مجبور کیا گیا ۔رپورٹ میں کہاگیا کہ مقبوضہ علاقے میں بھارتی فوج، پولیس اور ایجنسیوں کے اہلکاروں کی طرف سے صحافیوں کو ہراسانی، اغوا، قاتلانہ حملوں ، گرفتاریوں،تھانوں میں طلبی اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ان کیلئے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی انتہائی مشکل ہو گئی ہے بھارتی پولیس اور نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کے اہلکاروں نے 4 مارچ 2017 کو کامران یوسف، 2 جولائی 2019 کو عاقب جاوید، 08 اگست 2019 کو قاضی شبلی، 8 اگست 2019 کو عادل فاروق، 21 اگست 2019 کو صحافی عادل فاروق، 10 اکتوبر 2021 کو فہد شاہ، 4 فروری 2022 کو سرتاج الطاف بھٹ، 14 مارچ 2023 کو فری لانس صحافی اور ٹو سرکلز ڈاٹ نیٹ کے ایڈیٹر عرفان معراج، 21 مارچ 2023 کو فری لانس صحافی ماجد حیدری اور 15 ستمبر 2023 کو راشد کو مقبوضہ علاقے کی اصل صورتحال سامنے لانے اور حقوق کی خلاف ورزیوں کا پردہ چاک کرنے کی پاداش میں کالے قانون پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا۔
عرفان معراج، سرتاج الطاف بٹ اور عادل سمیت کئی صحافی اب بھی بھارت اور کی مختلف جیلوں میں غیر قانونی حراست کا سامنا کر رہے ہیں۔23 اپریل 2025 کو جموں میں مقیم سینئر صحافی راکیش شرما کو کٹھوعہ میں ایک احتجاج کے دوران بی جے پی رہنماوں نے پہلگام واقعے کے دوران بھارتی فورسز کی عدم موجودگی پر سوال اٹھانے پر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ جس کے خلاف صحافیوں نے جموں اور کٹھوعہ میں بھر پور احتجاج کیا۔
جلاوطن کشمیری ایوارڈ یافتہ فوٹو جرنلسٹ 31 سالہ مسرت زہرہ کو بھارتی پولیس کی دھمکیوں کی وجہ سے کشمیر چھوڑ پڑا ۔ انہوں نے متنازعہ علاقے میں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دینے پر توجہ مرکوز کی تھی۔ وہ مارچ 2021 میں ایک جرمن این جی او کی مدد سے مقبوضہ علاقے سے چلی گئی ۔زہرہ کو ان کی فیس بک پوسٹس کے لیے نشانہ بنایا گیا، جنہیں پولیس نے "بھارت مخالف" قرار دیا تھا اور زہرہ کو کالے قانون”یو اے پی اے“ کے تحت مقدمات کا سامنا کرنا ہے۔
جنوری 2022 میں زہرہ نے کہا تھا کہ پولیس نے سری نگر میں اس کے والدین کو مارا پیٹا تھا۔ انہوں نے ٹویٹ کیا” پولیس نے آج شام 5 بجے کے قریب بٹاملو میں میرے والدین کو مارا پیٹا۔ پولیس والوں نے میرے والد کا شناختی کارڈ چھین لیا ہے اور جب میری والدہ نے مداخلت کرنے کی کوشش کی تو انہیں بھی مارا پیٹا گیا ۔چیلنجوں اور دھمکیوں کے باوجود زہرہ نے اپنی صحافت میں ثابت قدمی سے کشمیر میں زندگی کے حقائق کو دستاویزی شکل دی ۔
ان کے کام کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا ہے۔ایک فری لانس فرانسیسی صحافی کومیٹی پال ایڈورڈ کو بھارتی پولیس نے اس وقت گرفتار کیا تھاجب وہ 10 دسمبر2017کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر سرینگر میں پیلٹ گن کے متاثرین کی تصاویر بنا رہے تھے۔ کومیٹی پال ایڈورڈ نے بعد میں ایک انٹرویو میں کہا کہ کشمیریوں کو بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں بدترین قسم کے جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا ہے اور بھارت نہیں چاہتا کہ کشمیر میں ہونےوالے مظالم دنیا کے سامنے آئیں۔
انہوں نے 2018میں ریلیز کی گئی اپنی دستاویزی فلم میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں نہتے کشمیریوں کے قتل عام کو بے نقاب کیاتھا۔بھارت میں واشنگٹن پوسٹ کی بیورو چیف اینی گوون کو قابض حکام نے 31جولائی 2018کو سرینگر کے ایک گھر میں نظربند کر دیا تھا اور انھیں رپورٹنگ کے لیے باہر جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ایک عالمی ایوارڈ یافتہ کشمیری فوٹو جرنلسٹ ثنا ارشاد متو کو امیگریشن حکام نے 02 جولائی 2022 کو نئی دہلی کے ہوائی اڈے پر اس وقت روکا جب وہ پیرس میں فوٹو گرافی کی ایک تقریب میں شرکت کے لیے جا رہی تھیں ۔
انہیں بھارتی امیگریشن نے 17 اکتوبر 2022 کو دوبارہ نئی دہلی کے ہوائی اڈے پر اس وقت روکا جب وہ Pulitzerنعام حاصل کرنے کے لیے نیویارک جا رہی تھیں۔۔ فری لانس صحافی آکاش حسن کو بھی26 جولائی 2022 کو نئی دہلی ایئرپورٹ پر روک لیا گیا اور سری لنکا نہیں جانے دیا گیا۔ آزادی پیرس میں قائم رپورٹرز ودآو ¿ٹ بارڈرز (آر ایس ایف نے) کی طرف سے آزادی صحافت کے عالمی دن پر جاری کردہ ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس2025 میں کہا گیا ہے کہ کشمیر میں ماحولیاتی موضوعات یا خبروں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کے لیے بھی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، جہاں صحافیوں کو اکثر پولیس اور نیم فوجی دستوں کی طرف سے ہراساں کیا جاتا ہے۔
بھارت نے اگر چہ مقبوضہ علاقے میں صحافیوں کے خلاف بھی گھیرا تنگ کر رکھا ہے تاہم کشمیری صحافی میڈیا کی آزادی پر بھارت کے حملے کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ مقامی صحافی تنظیموں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ علاقے میں جاری بھارتی جبر کانوٹس لے اور صحافی آزادی یقینی بنانے کیلئے بھارت پر دبائو ڈالے۔