برطانیہ میں عارضی رہائشی سہولیات کا شدید ہوتا ہوا مسئلہ

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 3 مئی 2025 14:40

برطانیہ میں عارضی رہائشی سہولیات کا شدید ہوتا ہوا مسئلہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 مئی 2025ء) برطانیہ میں ہاؤسنگ کے مسائل کے حوالے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم شیلٹر کا کہنا ہے کہ 2029ء تک دو لاکھ بچے بھی اس طرح کی عارضی رہائش گاہوں میں رہنے پر مجبور ہوں گے جبکہ ملکی حکومت کو ایسی رہائشی سہولیات پر 3.9 بلین پاؤنڈ سالانہ خرچ کرنا پڑا کریں گے، جو موجودہ سرکاری ہاؤسنگ اخراجات میں تقریباﹰ 26 فیصد اضافے کے برابر ہوں گے۔

برطانیہ کی ہاؤسنگ مارکیٹ، قیمتوں میں کمی اور ’نازک توازن‘

برطانوی روزنامے گارڈین کے مطابق ملکی بلدیاتی ادارے یا لوکل کونسلز ایسی رہائشی سہولیات کے مالکان کو مارکیٹ ریٹ سے 60 فیصد زیادہ کرائے ادا کرتی ہیں تاکہ بےخانمانی کا شکار ہو جانے والے شہریوں کو ہنگامی بنیادوں پر رہائش گاہیں فراہم کی جا سکے۔

(جاری ہے)

عارضی رہائش گاہوں کی شرح میں اضافہ

برمنگم سے تعلق رکھنے والے پاکستانی نژاد برطانوی شہری اظہر حسین، جو مقامی بلدیاتی کونسل کے فراہم کردہ ایک گھر میں ایک عشرے سے زیادہ عرصے سے رہ رہے ہیں، کہتے ہیں کہ اس مسئلے میں شدت کا سبب مہنگائی اور بے روزگاری بھی ہیں۔

اظہر حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بہت سے لوگ خصوصاﹰ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد سے نہ تو اپنے ذاتی مکانات خریدنے کی سکت رکھتے ہیں اور نی ہی بڑھتے ہوئے ماہانہ کرائے ادا کرنے کی۔‘‘

اظہر حسین کے مطابق کورونا وائرس کی عالمگیر وبا کے سبب بہت سے چھوٹے اور درمیانے سائز کے کاروبار بند ہو گئے تھے، ''اس وجہ سے بھی بے روزگاری میں اضافہ ہوا اور گھروں کے کرائے بھی بہت زیادہ ہو گئے۔

ان حالات میں کونسلوں پر دباؤ بڑھا اور ان کو عام لوگوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں عارضی رہائش گاہیں فراہم کرنا پڑیں۔‘‘

برمنگم ہی سے تعلق رکھنے والے 54 سالہ ندیم خان کا کہنا تھا کہ ایمرجنسی رہائش گاہوں میں منتقلی کا رجحان ایشیائی نژاد برطانوی باشندوں میں بھی کافی بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب ہمارے گھرانوں میں بچے بڑے ہو جاتے ہیں، تو یقیناﹰ جگہ کم پڑ جاتی ہے۔

اس کے علاوہ بہت سے مالک مکان بھی کرائے داروں سے اپنے بچوں کی شادیوں کے لیے اپنے گھر خالی کروا لیتے ہی۔ اس بنا پر بھی کرائے کے گھروں میں رہنے والے لوگ عارضی طور پر بے گھر ہو جاتے ہیں۔‘‘

لندن کی سڑکوں پر شب بسری کرنے والوں کی تعداد ریکارڈ سطح پر

ندیم خان کا کہنا تھا کہ ایسے میں پھر لوکل کونسلوں کو درخواست دہندگان کو ہنگامی رہائش فراہم کرنا پڑتی ہے، جو انہیں بہت مہنگی بھی پڑتی ہے۔

مانچسٹر سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی برٹش شہری نے، جنہوں نے اپنا تعارف صرف محمد کے نام سے کرایا، کہا کہ ہر کوئی کونسل یا اس سے منسلک رہائشی سوسائٹیوں میں جانا چاہتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نجی مالکان اچھا خاصا کرایہ مانگتے ہیں جبکہ عام لوگوں کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے۔ اس لیے وہ نجی گھروں سے نکل کر بے گھر ہو جاتے ہیں۔

پھر کونسلیں یا تو انہیں اپنے گھر دیتی ہیں یا انہیں ایمرجنسی رہائش گاؤں میں بھیجنا پڑ جاتا ہے۔‘‘

عارضی رہائش گاہوں کی حالت کیسی؟

عارضی رہائش گاہوں میں رہنے والے زیادہ تر پاکستانی نژاد باشندوں نے ایسے گھروں کی عمومی حالت کو مناسب قرار دیا۔ تاہم یارکشائر کے ٹاؤن مڈلزبرا سے تعلق رکھنے والے ایک مقامی سفید فام بے گھر شہری نے ڈی ڈبلیو کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ''ہم تین افراد ایک عارضی رہائش گاہ میں رہ رہے ہیں، جہاں دیوار سیلن زدہ ہیں اور چوہے بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔

اس جگہ عام طور پر شور اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ میں وہاں سو ہی نہیں پاتا۔‘‘

اس انگلش شہری کا کہنا تھا کہ وہ سخت سردیوں میں بھی اس عارضی رہائش گاہ میں رہنے کے بجائے باہر کسی نہ کسی دکان کی چھت کے نیچے سوتے رہے، ''اس علاقے میں دن کے دوران میں اپنا زیادہ وقت فٹ پاتھ پر گزارتا ہوں۔‘‘

مستقل رہائش گاہ کے لیے انتظار

مڈلزبرا کے اس بے گھر شہری کا کہنا تھا کہ جب انہیں عارضی رہائش گاہ میں بھیجا گیا، تو کہا گیا تھا کہ جلد ہی ان کے لیے ایک مستقل رہائش کا بندوبست کر دیا جائے گا۔

''لیکن اب مجھے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے۔ میں کونسل کے چکر لگا لگا کر تھک چکا ہوں۔ اب تو میں وہاں جاتا بھی نہیں۔‘‘

سفری رکاوٹیں: برطانوی حکومت پر ملکی سیاحتی شعبے کو سبوتاژ کرنے کا الزام

اظہر حسین بھی اس برطانوی شہری کی مذکورہ رائے سے اتفاق کرتے ہیں، ''مجھے بھی تقریباﹰ ایک سال تک مستقل رہائش کے لیے انتظار کرنا پڑا۔

‘‘ لیکن ندیم خان کا کہنا تھا کہ انہیں تقریباﹰ آٹھ مہینے انتظار کرنا پڑا تھا۔

ندیم خان کے مطابق وہ چار ہفتے ایک ہوٹل میں رہے۔ ''پھر کئی مہینے میں ایمرجنسی میں ایک گھر میں بھی رہا۔ اس کے بعد مجھے میرے دو معذور بچوں کی وجہ سے ایک مستقل گھر مقابلتاﹰ جلد مل گیا۔ لیکن میں کئی لوگوں کو جانتا ہوں، جنہوں نے عارضی رہائش گاہوں میں اچھا خاصا طویل وقت گزارا ہے۔

‘‘

حکومت پندرہ لاکھ گھر تعمیر کرے گی

ایک اندازے کے مطابق برطانیہ میں اس وقت تقریباﹰ 17 ہزار گھرانے پانچ سال سے بھی زیادہ عرصے سے عارضی رہائش گاہوں میں رہ رہے ہیں۔ برمنگم سے لیبر پارٹی کی طرف سے پانچ مرتبہ کونسلر رہنے والے عنصر علی خان کہتے ہیں کہ لیبر پارٹی کی حکومت اس مسئلے کو بڑی سنجیدگی سے لے رہی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''لیبر پارٹی نے حکومت میں آتے ہی 15 لاکھ گھروں کی تعمیر کا اعلان کیا۔

اس حوالے سے مقامات کی نشاندہی کی جا رہی ہے اور کونسلوں کو فنڈز بھی مہیا کیے جا رہے ہیں۔‘‘

عنصر علی خان کا دعویٰ ہے کہ مناسب قیمت پر گھروں کی تعمیر کافی عرصے سے رکی ہوئی تھی۔ ''لیبر حکومت اب ہنگامی بنیادوں پر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ اس کے حل میں کچھ وقت تو لگے گا۔‘‘

’عورت‘ کی تعریف پیدائشی جنس کی بنیاد پر ہوگی، برطانوی سپریم کورٹ

دوسری طرف برطانیہ میں بے خانمانی کے مسائل پر کام کرنے والی تنظیم شیلٹر کا کہنا ہے کہ حکومت کو ایک دہائی تک ہر سال 90 ہزار سوشل ہومز تعمیر کرنا پڑیں گے، جن سے عوام کے لیے یہ ممکن ہو گا کہ وہ مناسب قیمتوں پہ گھر خرید سکیں اور عارضی رہائش گاہوں کی تعداد کم سے کم کی جا سکے۔

مصنف: ایس خان

ادارت: مقبول ملک