اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 مئی 2025ء) ڈھاکہ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق بنگلہ دیشی حکام کو خاص طور پر رواں برس کے لیے یہ امید تھی کہ اس جنوبی ایشیائی ملک کی تپ دق کے خلاف جنگ اور بھی کامیاب رہے گی۔ ایسا اس لیے بھی سوچا جا رہا تھا کہ اس قابل علاج بیماری سے، جس سے احتیاطی تدابیر کے ساتھ بچا بھی جا سکتا ہے، ڈھاکہ حکومت نے ملک بھر میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں سالانہ کئی ہزار کی کمی کا ہدف بھی حاصل کر لیا تھا۔
برسوں کی محنت ضائع ہو جانے کا خطرہ
امریکہ میں دوسری مرتبہ صدر بننے کے بعد ریبپلکن سیاستدان ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سال موسم بہار میں جب بہت سے شعبوں میں بیرونی دنیا کے لیے امریکی امداد کے خاتمے یا اس میں بہت زیادہ کمی کا اعلان کیا، تو اس اقدام نے بنگلہ دیش جیسے ممالک کو بھی بری طرح متاثر کیا۔
(جاری ہے)
امریکہ کی طرف سے بین الاقوامی ترقی کے لیے دی جانے والی امداد یا یو ایس ایڈ (USAID) کے تحت جن رقوم میں کٹوتی کر دی گئی، ان میں سے بنگلہ دیش کو وہ 48 ملین ڈالر نہ مل سکے، جن کے بارے میں قوی امید تھی کہ وہ بطور امداد ملنا ہی تھے۔
اس مالی کٹوتی کے نتیجے میں اب اس جنوبی ایشیائی ملک میں صحت کے شعبے میں کام کرنے والے کارکنوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ ان رقوم کی عدم دستیابی سے ان کی برسوں کی محنت اور اب تک کی کامیابیاں ضائع ہو جانے کا خطرہ ہے۔
یہی نہیں بلکہ اب پھر ایسی ہزارہا انسانی اموات کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے، جن سے طبی شعبے میں ان امدادی رقوم کو استعمال کرتے ہوئے بچا جا سکتا تھا۔
محمد پرویز نامی مزدور کی کہانی
ڈھاکہ میں محمد پرویز نامی ایک مزدور نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''ڈاکٹروں نے مجھے بتایا تھا کہ میں تپ دق کی ایک بہت شدید قسم کی انفیکشن کا شکار تھا۔‘‘ محمد پرویز نے ہسپتال میں اپنے بستر پر لیٹے اور مسلسل بہت زیادہ کھانستے ہوئے کہا، ''میرا علاج ان جان بچانے والی دوائیوں کے ساتھ ہو رہا ہے، جو ہسپتال کو یو ایس ایڈ پروگرام کے تحت مہیا کی گئی تھیں۔
‘‘اس بنگلہ دیشی مزدور کو لاحق تپ دق کا مرض اس نوعیت کا ہے کہ اس کے جراثیم کئی ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کر چکے ہیں اور اسے مسلسل تقریباﹰ ایک سال تک ہسپتال میں رہتے ہوئے اپنا علاج کرانا ہے۔
اس کے معالج اس کی بیماری سے متعلق ہر تفصیل کا باقاعدہ ریکارڈ بھی رکھ رہے ہیں۔ مگر اب مسئلہ یہ ہے کہ محمد پرویز کو یہ یقین بالکل نہیں کہ اس کا اس طرح علاج کب تک جاری رہ سکے گا۔
دنیا بھر میں تپ دق کے سب سے زیادہ مریضوں والے ممالک میں سے ایک
ڈھاکہ میں محمد پرویز کا جس ہسپتال میں علاج ہو رہا ہے، وہ خاص طور پر ٹی بی کے مریضوں کے علاج کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس ہسپتال کے لیے مالی وسائل امریکہ مہیا کرتا تھا۔
دنیا بھر میں ٹی بی کے نئے کیسز 30 سال کی بلند ترین سطح پر
اس ہسپتال کی ڈپٹی ڈائریکٹر عائشہ اختر نے اے ایف پی کو بتایا، '' بنگلہ دیش کا شمار دنیا کے ان سات ممالک میں ہوتا ہے، جہاں تپ دق کے مریضوں کی تعداد اور تناسب سب سے زیادہ ہیں۔
ہمارا ارادہ تھا اور اب بھی ہے کہ ہمارے ملک سے اس بیماری کا 2035ء تک پوری طرح خاتمہ ہو جائے۔‘‘بنگلہ دیش نے حالیہ برسوں میں تپ دق کے خلاف اپنی جدوجہد میں واضح کامیابیاں حاصل کی تھیں۔ 2010ء میں اس ملک میں ٹی بی کی وجہ سے ہونے والی انسانی اموات کی سالانہ تعداد 81 ہزار سے زائد رہی تھی۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں بنگلہ دیش میں ٹی بی کی وجہ سے انسانی اموات کی سالانہ تعداد مقابلتاً بہت کم ہو کر 44 ہزار رہ گئی تھی۔
ڈاکٹر عائشہ اختر نے کہا، ''بنگلہ دیش میں تپ دق کے خلاف پروگرام پر بڑی مستعدی سے کام ہو رہا تھا۔ پھر ایک دن یکدم یو ایس ایڈ نے امداد بند کر دی۔‘‘
ادارت: عاطف بلوچ