اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 مئی 2025ء) کردوں کی اس کالعدم عسکریت پسند تنظیم کے قریبی خبر رساں اداروں نے پیر 12 مئی کے روز اطلاع دی کہ کردستان ورکرز پارٹی (PKK) جلد ہی اپنی کارروائیاں بند کر دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔
ترکی میں کرد نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں کی کردوں کے لیے خود مختاری کی حامی یہ تنظیم ترک حکومت اور فوج کے خلاف قریب چار دہائیوں تک مسلح کارروائیاں کرتی رہی ہے۔
کرد نواز خبر رساں ادارے اے این ایف کی طرف سے جاری کردہ کردستان ورکرز پارٹی کے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''بارہویں پی کے کے کانگریس نے پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو تحلیل کرنے اور اس کے مسلح جدوجہد کے طریقہ کار کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
(جاری ہے)
‘‘
اس بیان میں مزید کہا گیا کہ پی کے کے کی حال ہی میں ہونے والی کانفرنس میں یہ واضح ہو گیا تھا، ''جمہوری سیاست کے ذریعے کردوں کے مسئلے کے حل کے مقام تک پہنچا گیا ہے اور اس طرح اس کا یہ تاریخی مشن مکمل ہو گیا ہے۔
‘‘گزشتہ ہفتے اس پارٹی کی کانگریس کے انعقاد کے بعد یہ اشارہ بھی مل رہا تھا کہ یہ گروپ اپنے بانی عبداللہ اوجلان کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کی کال پر عمل پیرا ہونے جا رہا ہے۔ اوجلان 1999ء سے استنبول کے قریب ایک جزیرے پر بنی جیل میں قید ہیں۔
گزشتہ ویک اینڈ پر ترک صدر رجب طیبایردوآن نے اشارہ دیا تھا کہ کردستان ورکرز پارٹی پی کے کے کا یہ فیصلہ عنقریب سامنے آنے والا ہے۔
ترک صدر کا کہنا تھا، ''ہم ترکی کو دہشت گردی سے پاک ملک بنانے کے مقصد کے لیے مضبوط قدموں کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔‘‘پی کے کے کا پس منظر
کرد نسلی اقلیت کم از کم 30 ملین نفوس پر مشتمل ہے جو پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد، جب مغربی اتحادیوں نے اس خطے میں سرحدی لکیریں نئے سرے سے کھینچی تھیں، تب ترکی، عراق، شام اور ایران کے درمیان تقسیم ہو گیا تھا۔
کردستان ورکرز پارٹی (PKK) 1978 ء میں وجود میں آئی تھی۔ اس کا ہدف ایک آزاد کرد ریاست کا حصول تھا۔ تاہم 90 کی دہائی میں اس تنظیم نے اپنے مقصد میں تبدیلی لاتے ہوئے صرف ترکی کے اندر خود مختاری کے حصول کی جدوجہد شروع کر دی تھی۔
بعد کی دہائیوں میں پی کے کے کے عسکریت پسندوں کی نا صرف ترک سکیورٹی فورسز کے ساتھ مسلح جھڑپیں معمول بن گئی تھیں بلکہ انہوں نے عام شہریوں پر بھی حملے کرنا شروع کر دیے تھے، جس کی وجہ سے انقرہ کے ساتھ ساتھ امریکہ اور یورپی یونین نے بھی اس گروپ کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔
ترکی میں حکومت پر کردوں کی آبادی پر مشتمل دیہات اور قصبوں کو تباہ کرنے اور اس گروہ کی جڑیں اکھاڑ پھینکنے کی کوششوں کے دوران عام شہریوں کو زبردستی نقل مکانی پر مجبور کرنے کا الزام بھی عائد کیا جاتا رہا ہے۔
ادارت: مقبول ملک