اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 مئی 2025ء) شام کے خلاف لگی امریکی پابندیوں کے خاتمہ متوقع طور پر 13برس تک خانہ جنگی کے شکار رہنے والے اس ملک میں سرمایہ کاری کے وسیع امکانات پیدا کرے گا۔ یہ صورتحال دیگر ممالک میں رہنے والے شامی باشندوں، ترکی اور خلیجی ریاستوں کے لیے بہت زیادہ کشش رکھتی ہے۔
ٹرمپ کا شام کے خلاف تمام امریکی پابندیاں ہٹانے کا اعلان
شام میں نئی عبوری حکومت اقتدار میں آ گئی
کاروباری افراد، شام کے وزیر خزانہ اور تجزیہ کاروں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپکے اعلان کی روشنی میں جب شام پر لگی پابندیاں ختم ہو جائیں گی تو متوقع طور پر انتہائی مشکلات کی شکار اس کی معیشت میں بہت سا بیرونی سرمایہ آئے گا۔
شام کے ارب پتی تاجر غسان ابود نے روئٹرز کو بتایا کہ وہ سرمایہ کاری کا منصوبہ بنا رہے ہیں اور انہیں توقع ہے کہ بین الاقوامی کاروباری تعلقات رکھنے والے دیگر شامی بھی ایسا ہی کریں گے۔
(جاری ہے)
اس وقت متحدہ عرب امارات میں رہنے والے ابود کے مطابق''وہ پابندیوں کے خطرات کی وجہ سے شام میں آنے اور کام کرنے سے ڈرتے تھے ... اب یہ (ڈر) مکمل طور پر غائب ہو جائے گا۔
‘‘انہوں نے شامی آرٹ، ثقافت اور تعلیم کو فروغ دینے کے لیے اربوں ڈالر کے ایک منصوبے کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا، ''میں یقینی طور پر مارکیٹ میں داخل ہونے کی منصوبہ بندی کر رہا ہوں، دو وجوہات کی بنا پر: میں ملک کو ہر ممکن طریقے سے بحال کرنے میں مدد کرنا چاہتا ہوں، اور دوسرا، یہاں امکانات بہت ہیں: آج شروع کیے گئے کسی بھی کام کے نتیجے میں اچھا منافع حاصل ہوسکتا ہے۔
‘‘شام کے نئے حکمران اسد خاندان کی پانچ دہائیوں کی حکمرانی کے دوران اپنائے گئے ریاستی قیادت والے ماڈل کو چھوڑ کر آزاد منڈی کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہو کر ملکی معیشت کو پہلے ہی ایک نئی راہ پر ڈال چکے ہیں۔ پابندیوں کے خاتمے سے اس معیشت میں بڑی تبدیلیاں لانا ممکن ہو گا۔
امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں نے 2011ء میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مظاہروں کے نتیجے میں شروع ہونے والی خانہ جنگ کے دوران شام پر سخت پابندیاں عائد کی تھیں۔
واشنگٹن نے گزشتہ برس دسمبر میں بشار الاسد کا تختہ الٹا دیے جانے کے باوجود ان پابندیوں کو برقرار رکھا کیونکہ وہ القاعدہ کے سابق کمانڈر اور عبوری صدر احمد الشارع کی قیادت میں نئی انتظامیہ کے اقدامات کا جائزہ لیا جا رہا تھا۔
سعودی عرب اور ترکی نے، جو الشارع کی حکومت کی حمایت کرتے ہیں، واشنگٹن پر زور دیا تھا کہ وہ پابندیاں اٹھائے۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے بدھ 14 مئی کو کہا کہ ایسا ہونے کے بعد سرمایہ کاری کے بہت سے مواقع پیدا ہوں گے۔شام کے عبوری صدر احمد الشارع نے اس موقع پر ٹیلی ویژن پر اپنے خطاب میں کہا کہ ٹرمپ کا فیصلہ تاریخی اور دلیرانہ ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ شام سرمایہ کاری کے ماحول کو مضبوط بنائے گا۔
انہوں نے کہا، ''ہم اندرون اور بیرون ملک اور دنیا بھر میں اپنے عرب اور ترک بھائیوں اور دنیا بھر میں دوستوں کی طرف سے سرمایہ کاری کا خیرمقدم کرتے ہیں۔
‘‘شامی تنازعے نے کئی شہری علاقوں کو ملبے میں تبدیل کر دیا ہے اور لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اداروں کا کہنا ہے کہ 23 ملین شامیوں میں سے 90 فیصد سے زیادہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔
’ملک گیر تعمیراتی سائٹ‘
ٹرمپ کے اعلان کے بعد سے شامی پاؤنڈ کی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ کرنسی ٹریڈرز کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز ایک ڈالر کی قیمت نو ہزار سے ساڑھے نو ہزار شامی پاؤنڈ رہی، جبکہ اس ہفتے کے آغاز میں یہ 12,600تھی۔
2011 میں جنگ سے پہلے ایک ڈالر 47 شامی پاؤنڈ کا تھا۔شام کے وزیر خزانہ یسر برنیہ نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ متحدہ عرب امارات، کویت اور سعودی عرب سمیت دیگر ممالک کے سرمایہ کار سرمایہ کاری کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا، ''شام آج مواقع کی سرزمین ہے، جس میں زراعت سے لے کر تیل، سیاحت، بنیادی ڈھانچے اور نقل و حمل تک ہر شعبے میں وسیع امکانات موجود ہیں… ہم تمام سرمایہ کاروں پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔
‘‘شام کی صورتحال ابھی بھی نازک
شام میں کچھ مسلح گروہوں نے ابھی تک اپنے ہتھیار حکومت کے حوالے نہیں کیے ہیں، کردوں کی خودمختاری کے مطالبات کشیدگی کا باعث ہیں، اور فرقہ وارانہ تشدد نے اقلیتوں کو الشارع کی حکمرانی سے خوفزدہ کر دیا ہے، حالانکہ انہوں نے تمام عوام کے تحفظ اور جامع حکمرانی کے وعدوں کا اظہار کیا تھا۔
اسرائیل الشارع کی مخالفت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ اب بھی جہادی ہیں۔ اسرائیل شام پر کئی مرتبہ بمباری کر چکا ہے۔شام کی معیشت سے متعلق ایک معروف نیوز لیٹر کے مدیر جہاد یزیگی نے کہا کہ امریکہ کا یہ فیصلہ تبدیلی لانے والا ہے کیونکہ اس نے ''بہت مضبوط سیاسی اشارہ‘‘ بھیجا ہے اور خلیج، بین الاقوامی مالیاتی تنظیموں اور مغرب میں شام کے متمول تارکین وطن کے ساتھ اس کے دوبارہ انضمام کی راہ ہموار کی ہے۔
لبنانی سرمایہ کار عماد الخطیب نے کہا کہ انہوں نے ٹرمپ کے اعلان کے بعد شام میں سرمایہ کاری کے اپنے منصوبوں کو تیز کر دیا ہے۔
انہوں نے لبنانی اور شامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر دو ماہ قبل دمشق میں 200 ملین ڈالر کے کچرے کی چھانٹی کے پلانٹ کی فزیبلٹی اسٹڈی کی تھی۔ بدھ کی صبح انہوں نے تیاریاں شروع کرنے کے لیے ماہرین کی ایک ٹیم شام بھیجی۔
عماد الخطیب نے روئٹرز کو بتایا، ''یہ پہلا قدم ہے ... اور انشاء اللہ اس کے بعد بڑے اقدامات کیے جائیں گے۔ ہم یقینی طور پر نئے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے کام کریں گے کیونکہ شام لبنان سے کہیں بڑا ہے۔‘‘
ادارت: کشور مصطفیٰ