10، 10 سال تک لوگ ڈیتھ سیل میں رہتے، اب ایسا نہیں ہوگا، ریلیف بنتا ہوا تو دیدیں گے ورنہ شہید کردیں گے‘جسٹس ہاشم کاکڑ

پیر 19 مئی 2025 22:15

10، 10 سال تک لوگ ڈیتھ سیل میں رہتے، اب ایسا نہیں ہوگا، ریلیف بنتا ہوا ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 19 مئی2025ء) سپریم کورٹ میں نورمقدم قتل کیس میں اپیلوں کی سماعت کل منگل کوبھی جاری رہے گی اور جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیئے ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اپیل ابتدائی سماعت کیلئے منظور کی اور پھر کیس نہ سنا جائے، 10، 10 سال تک لوگ ڈیتھ سیل میں رہتے ہیں، اب ایسا نہیں ہوگا، ریلیف بنتا ہوا تو دے دیں گے ورنہ شہید کر دیں گے۔

ایک بچی کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ بچی کا قتل چھ سے سات لوگوں کی موجودگی میں ہوا،جسٹس باقرنجفی نے کہاکہ ہمارا سسٹم ہی ایسا ہے‘پارٹیز کو سب کچھ پتہ ہوتا ہے۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہاکہ پارٹیز کو سارے حقائق کا پتہ ہوتا ہے ٹرائل ججز کا ہوتا ہے۔ انھوں نے یہ ریمارکس پیر کے روزدیے ہیں۔ سپریم کورٹ کے جسٹس ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے نور مقدم قتل کیس میں اپیلوں پر سماعت کی۔

(جاری ہے)

دوران سماعت مجرم ظاہر جعفر کے وکیل سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے اور موقف اختیار کیا ملزم کی 2013 سے آج تک کی میڈیکل ہسٹری عدالت میں پیش کر دی ہے۔وکیل نے بتایا کہ ملزم کو قتل پر سزائے موت، ریپ پر عمر قید اور اغوا پر 10 سال سزا سنائی گئی، اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریپ پر عمر قید سے بڑھا کر سزائے موت کر دی، ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ عمر قید یعنی کم سزا دینے کی وجوہات ٹرائل کورٹ نے نہیں بتائیں، ابتدائی ایف آئی آر صرف قتل کی تھی، دیگر جرائم بعد میں شامل کیے گئے، وقوعہ کے 22 دن بعد اغوا اور ریپ کی دفعات شامل کی گئیں۔

وکیل سلمان صفدر کا کہنا تھا کہ جائے وقوعہ ملزم کا گھر تھا اس کے شواہد پیش نہیں کیے گئے، ریکارڈ کے مطابق رات 10 بجے واقعہ ہوا، ساڑھے 11 بجے قتل کا مقدمہ درج ہوا، پوسٹ مارٹم صبح ساڑھے 9 بجے ہوا جس کے مطابق نور مقدم کا انتقال رات 12 بج کر 10 منٹ پر ہوا، واقعے کے ایک زخمی امجد کو پولیس نے گواہ کے بجائے ملزم بنا دیا۔وکیل نے دلائل میں مزید کہا کہ پولیس کا انحصار سی سی ٹی وی فوٹیج پر ہے، ملزم کا فوٹوگرامیٹک ٹیسٹ بھی کروایا گیا بانی پی ٹی آئی کے نو مئی مقدمے کابھی تذکرہ ہوا، سلمان صفدر نے کہا فوٹوگرامیٹک ٹیسٹ کا ذکر کچھ دن پہلے ایک اور کیس میں بھی آیا تھا۔

دوران سماعت سلمان صفدر نے جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس فیصلے کا حوالہ دیا جس پر جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ جسٹس آصف کھوسہ کے ویڈیو اور آڈیو کی تصدیق سے متعلق فیصلے پر انحصار کر رہے ہیں، اب پیرامیٹرز پر انحصار کریں تو خانہ کعبہ میں کھڑے ہوکر کچھ بات کریں، وہ بھی ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا۔جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے وہ فیصلہ تو آپ کے حق میں کر دیا تھا، سلمان صفدر نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آلہ قتل ایک چھوٹا سا چاقو ہے جس پر ملزم کے فنگر پرنٹس بھی موجود نہیں، مدعی شوکت مقدم کے علاوہ تمام گواہ سرکاری تھے۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے کہ واقعے کا کوئی چشم دید گواہ نہیں، تمام شواہد واقعاتی ہیں، ریلیف بنتا ہوا تو دے دیں گے ورنہ شہید کر دیں گے۔ جسٹس ہاشم کاکڑ نے ریمارکس دیے ججز کو تھوڑی بہت پین لینا چاہیے، ایسا نہیں ہونا چاہیے اپیل ابتدائی سماعت کے لیے منظور کی اور پھر کیس نہ سنا جائے، 10،10 سال تک لوگ ڈیتھ سیل میں رہتے ہیں، اب ایسا نہیں ہوگا۔

جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ ساڑھے 11 بجے مخصوص نشستوں والا کیس ہے، اگر بینچ ٹوٹ گیا تو بارہ کے قریب نور مقدم کا مقدمہ سن لیں گے، اگر مخصوص نشستوں والا بینچ نہ ٹوٹا تو ایک بجے مزید سماعت ہوگی۔ عدالت نے کیس میں وقفہ کردیا۔وقفے کے بعدسلمان صفدرنے کہاکہ میرا نکتہ یہ ہے کہ ظاہر جعفر ٹرائل کی کسی بھی اسٹیج پر میڈیکلی فٹ نہیں تھا، عدالت نے پوچھاکہ کیا ظاہر جعفر کی ذہنی حالت جانچنے کیلئے کوئی بورڈ تشکیل دیا گیا تھا سلمان صفدرنے کہاکہ یہی تو افسوس ہے، کسی اسٹیج پر بھی میڈیکل بورڈ تشکیل نہیں دیا گیا، شواہد میں سی سی ٹی وی کی بات کی گئی، ڈی وی آر کی بات کی گئی، ظاہر جعفر نے فریم آف چارج کے وقت اغوا، ریپ، قتل، تینوں الزامات کا انکار کیا، وکیل ظاہرجعفرنے کہاکہ پراسیکیوشن کا پورا کیس کیمروں کی فوٹیج اور ڈی وی آر پر ہے،پوسٹ مارٹم رپورٹ میں زخموں کے سائز کا کوئی ذکر نہیں۔

سلمان صفدرنے کہاکہ ایسا پوسٹ مارٹم کبھی نہیں دیکھا جس میں زخم کے نشان کو ذکر نہ ہو۔جسٹس ہاشم کاکڑنے کہاکہ کیا آپ ان نیچرل ڈیتھ کو متنازعہ بنا رہے ہیں۔ایک بچی کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔جسٹس باقرنجفی نے کہاکہ ہمارا سسٹم ہی ایسا ہے۔پارٹیز کو سب کچھ پتہ ہوتا ہے۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہاکہ پارٹیز کو سارے حقائق کا پتہ ہوتا ہے ٹرائل ججز کا ہوتا ہے۔

جسٹس ہاشم نے کہاکہ بچی کا قتل چھ سے سات لوگوں کی موجودگی میں ہوا۔وکیل والدنورمقدم نے کہاکہ تھراپی کلینک کے مالک اور ملازمین کو حقائق چھپانے پر ملزم بنایا گیا۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہاکہ وقت کے ساتھ پریزیمشن بدل نہیں سکتی کوئی، اگر اس دور میں کوئی یہ کہے کہ اسکے پاس موبائل فون نہیں ہے تو یہ ماننے والی بات نہیں ہے، جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہاکہ تین پوسٹ مارٹم کس مقصد کے لیے کروائے گئے، سلمان صفدرنے کہاکہ اس کا جواب شاہ خاور صاحب دیں گے، جسٹس ہاشم نے کہاکہ یہ سوال آپ سے ہی کریں گے، شاہ خاور صاحب آپ کل کتنا وقت لیں گے، شاہ خاورنے کہاکہ مجھے کل ایک سے ڈیڈھ گھنٹہ مزید چاییے ہو گا، جسٹس ہاشم نے کہاکہ کل بینچ ہی ڈیڈھ گھنٹے دستیاب ہو گا اسکے بعد دوسرا کیس سننا ہے، اگر کل آدھا گھنٹہ سلمان صفدر کو دے دیں اسکے بعد آپکو سن لیں، جسٹس اشتیاق نے کہاکہ یا پھر کل بھی آپکو ایک بجے تک انتظار کرنا ہو گا، شاہ خاورنے کہاکہ وہ جیسے عدالت کو بہتر لگے، سلمان صفدرنے کہاکہ میں ابھی 15 سے بیس منٹ میں ثبوتوں پر دلائل ختم کروں گا، کل بیس منٹ لوں گا، بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت آج منگل تک کے لیے ملتوی کردی سلمان صفدراپنے دلائل جاری رکھیں گے۔