Live Updates

کیا پاپولزم جمہوریت کے لیے خطرہ ہے؟

DW ڈی ڈبلیو جمعرات 22 مئی 2025 17:00

کیا  پاپولزم جمہوریت کے لیے خطرہ ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 مئی 2025ء) دنیا بھرمیں پاپولسٹ لیڈر ایسے نعروں کا انتخاب کرتے ہیں جو کہ نہ صرف عوام میں مقبول ہوتے ہیں بلکہ یہ اس قدر عمومی نوعیت کے ہوتے ہیں کہ ان نعروں میں کیے گئے وعدوں کی کامیابی یا ناکامی کا اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے۔ ان میں جذباتیت کا عنصر بہت نمایاں ہوتا ہے اور یہ عوام کی اکثریت کو ٹارگٹ کرتے ہیں تا کہ ان کی حمایت حاصل کی جا سکے۔

پاپولزم سے متعلق عمومی رائے یہ ہے کہ یہ شاید دائیں بازو کی پارٹیوں میں نمایاں ہے لیکن یہ بائیں بازو کی سیاست میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔ یہ کسی مخصوص نظریے سے زیادہ ایک اندازِ سیاست ہے۔ بنیادی طور پر، پاپولزم ایک ایسا سیاسی طریقہ کار ہے، جس میں "صاف و شفاف عوام" کو "کرپٹ اشرافیہ" کے خلاف کھڑا کیا جاتا ہے اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ سیاست عوام کی نمائندہ ہے اور جو "شخصیت" اس کو لیڈ کر رہی ہے وہی عوام کی اصل آواز ہے۔

(جاری ہے)

گزشتہ چند برسوں میں کئی ممالک میں اس طرز پر سیاسی ہلچل دیکھنے کو ملی ہے، اسے اکثر "پاپولسٹ لہر" کہا جاتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ مغربی دنیا میں اس ہلچل کا آغاز 2016 میں ہوا، جب برطانیہ میں بریگزٹ ریفرنڈم کے ذریعے یورپی یونین سے علیحدگی کا فیصلہ ہوا اور امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر منتخب ہوئے۔اس سب میں ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہی نائجل فراج جنہوں نے بریگزٹ تحریک کی قیادت سنبھالی تھی، ابھی حالیہ لوکل الیکشن میں ان کی پارٹی ریفارم یوکے نے لیبر پارٹی کو شکست دی ہے۔

بریگزٹ تحریک میں ان کے ایک حامی اور دوست "Steve Bannon” نے 2016 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی مہم کی بھی قیادت کی۔

میڈیا اور سیاسی اشرافیہ ان دونوں واقعات سے چونک گئے اور اس نئی سیاسی گتھی کو سلجھانے کی کوشش کرنے لگے۔ زیادہ تر تجزیہ نگاروں کا خیال تھا کہ یہ سب ایک بڑی معاشی اور سماجی تبدیلی کے اثرات تھے۔ گلوبلائزیشن اور ٹیکنالوجی میں تیزی سے آنے والی تبدیلیوں نے عام آدمی کی زندگی کو کافی متاثر کیا ہے۔

اشرافیہ اور عوام میں حائل خلیج مزید گہری ہوئی اور اس خلیج کا فائدہ پاپولسٹ جماعتوں نے اٹھایا۔ اس ناراضی نے موجودہ نظام اور سیاست دانوں کے خلاف عوامی ردِعمل کو جنم دیا، جسے پاپولسٹ تحریک کہا گیا۔اس کے بعد دنیا بھر میں، جیسے کہ برازیل، ہنگری، بھارت، اٹلی اور سویڈن میں، جب بھی کسی پاپولسٹ پارٹی کو انتخابات میں کچھ کامیابی ملی، تو تجزیہ کاروں نے اسے پاپولزم کے پھیلاؤ کی ایک اور مثال قرار دیا اور یہ تشویش بڑھنے لگی کہ پاپولزم روایتی سیاسی نظام اور جمہوریت کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔

دنیا کے کئی حصوں میں پاپولسٹ پارٹیوں کا بطور اہم انتخابی طاقت سامنے آنا، جمہوریت کے لیے ایک جھٹکا ضرور ہے، لیکن جمہوریت کی لمبی تاریخ کو دیکھیں تو یہ حیران کن نہیں۔ یورپ میں، مثال کے طور پر، دائیں بازو کی پاپولسٹ پارٹیوں کو ووٹوں کا جو حصہ ملتا ہے وہ اس صدی کی شروعات سے ہی ہر سال نصف فیصد سے بھی کم بڑھا ہے۔ اس کے مقابلے میں، بیسویں صدی کے آغاز میں سوشلسٹ پارٹیوں کا عروج کہیں زیادہ تیز تھا۔

لہذا یہ سمجھنا کہ پاپولزم جمہوری اقدار کی عمارت گرا سکتا ہے شاید مبالغہ ہو گا۔ جہاں یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ پاپولزم تحریکیں دنیا بھر میں زور پکڑ رہی ہیں وہیں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ان میں اتنی سکت نہیں کہ یہ جمہوری نظام کو کوئی بڑا نقصان پہنچا سکیں۔

پاپولسٹ پارٹیوں کی مقبولیت میں اضافے کا تاثر کافی حد تک میڈیا میں ان کی غیر متوازن تشہیر کی وجہ سے بنتا ہے۔

جہاں پاپولسٹ لیڈر سوشل میڈیا کا استعمال کرکے مقبولیت سمیٹتے ہیں وہیں روایتی میڈیا بھی ان کی مقبولیت کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا ان پارٹیوں کی کامیابیوں سے متاثر رہتا ہے، لیکن ان کے مسائل اور ناکامیوں کو زیادہ تر نظرانداز کرتا ہے۔

جیسے 2023 کے اسپین کے انتخابات کی نیویارک ٹائمز میں رپورٹنگ میں دیکھا گیا۔

انتخابات سے دو ہفتے پہلے ایک بڑی خبر میں دائیں بازو کی پارٹی "وُوکس" کے عروج کو ایک عالمی رجحان قرار دیا گیا، لیکن جب انتخابات میں وُوکس اچھی کارکردگی نہ دکھا سکی تو اس کی رپورٹ صرف صفحہ 8 پر ایک چھوٹے کالم میں دی گئی۔ اسی طرح فرانس میں لی پین کی مقبولیت نے عالمی میڈیا کی خوب توجہ حاصل کی لیکن اس کی ناکامی شاید اتنی بڑی خبر نہ بن سکی۔

میڈیا کی یہ دلچسپی نہ صرف عوامی رائے کو متاثر کرتی ہے بلکہ یہ انتخابی نتائج پر بھی اثرانداز ہو سکتی ہے۔ برطانوی محققین کے مطابق یو کے انڈیپینڈنس پارٹی کو میڈیا میں غیرمتناسب توجہ ملی، جس سے عوامی حمایت میں اضافہ ہوا۔ ایسی پارٹیاں جب یہ تاثر دیتی ہیں کہ وہ روایتی پارٹیوں کا متبادل ہیں تو میڈیا بھی لاشعوری طور پر اس تاثر کو تقویت دیتا ہے۔

لیکن پاپولسٹ پارٹیوں کی کامیابی کا مطلب جمہوریت کا خاتمہ نہیں ہے۔

اکثر میڈیا یہ سمجھتا ہے کہ پاپولسٹ پارٹیوں کو ملنے والا ووٹ عوامی رائے میں بڑی تبدیلی کی نشانی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاپولسٹ سوچ (جیسے مہاجرین سے نفرت، سیاستدانوں پر عدم اعتماد، قوم پرستی، وغیرہ) اور ووٹ دینے والے افراد کے رجحانات میں کوئی خاص ربط نہیں پایا گیا۔

یعنی اگرچہ کوئی شخص ان خیالات کا حامل ہو، اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہر حال میں پاپولسٹ پارٹی کو ہی ووٹ دے گا۔زیادہ تر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جن ممالک میں مہاجرین کی تعداد زیادہ ہے وہاں پاپولزم تیزی سے پھیلتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جہاں مہاجرین زیادہ آئے وہاں ہمیشہ ان کے مخالف جذبات نہیں پائے جاتے۔

جرمنی اور سویڈن جیسے ملک، جنہوں نے مہاجرین کو کھلے دل سے قبول کیا، ابھی بھی یورپ کے سب سے زیادہ مہاجر دوست ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔

جبکہ ہنگری اور پولینڈ میں مہاجرین کی تعداد کم رہی۔ عام طور پر، ہر جمہوریت میں ایک طبقہ ایسا ہوتا ہے جو نظامِ حکومت سے غیر مطمئن ہوتا ہے اور پاپولسٹ لیڈر اسی بے چینی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

پاپولسٹ پارٹیوں کی کامیابی صرف عوامی سوچ پر نہیں، بلک مخالف لیڈرشپ، دوسرے امیدواروں کی مقبولیت اور الیکشن کے نظام پر بھی منحصر ہوتی ہے۔

اگر امریکہ کی بات کی جائے تو ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کی وجہ صرف ان کے پاپولسٹ نعرے یا مہاجرین سے نجات کا وعدہ نہیں تھے۔ کہیں نہ کہیں ان کے پہلے مخالف امیدوار سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی خراب کارکردگی، ان کی صحت کی خرابی اور بروقت فیصلہ سازی کی کمی جیسے عوامل نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ وہیں کملا ہیرس کی عوام میں غیر مقبولیت اور ان کی الیکشن کمپین میں مسائل کی بجائے ذاتی حملوں پر توجہ نے بھی عوام کو ان سے دور کیا۔

پاپولزم کے عروج کی سب سے عام توجیہ معاشی مسائل، صنعتی زوال، گلوبلائزیشن اور ٹیکنالوجی میں تبدیلی قرار دی جاتی ہے۔ لیکن پاپولزم کے بڑھتے ہوئے رجحان کی صرف یہ وجوہات نہیں۔ زیادہ تر جمہوریتوں میں پاپولزم کی حمایت کی اصل وجہ معاشی نہیں بلکہ ثقافتی اور معاشرتی ہے۔ یہ پارٹیاں ان لوگوں کو اپیل کرتی ہیں جو اپنے معاشروں میں تیزی سے ہونے والی سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں سے پریشان ہیں۔

جیسے کہ امریکہ میں نسلی انصاف کی تحریک اور مذہبی رجحان میں کمی عام لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ کئی جگہوں پر قومی و مقامی شناخت کا ختم ہونا بھی تشویش کی ایک بڑی وجہ ہے۔ بھارت میں نریندر مودی کی بے جےپی پارٹی عوام میں اس لیے مقبولیت حاصل کر پائی ہے کیونکہ وہ کھوئی ہوئی "ہندوتوا" شناخت کو بحال کرنا چاہتے ہیں- لہذا ہر ملک میں پاپولسٹ رہنما الگ وجوہات پر لوگوں کی حمایت حاصل کرتے ہیں۔

اس لیے یہ کہنا کہ پاپولزم کے محرکات ہر معاشرے میں ایک جیسے ہیں، شاید درست نہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاپولزم ایک لہر ہے جو مختلف معاشروں میں مختلف وجوہات کی وجہ سے اٹھتی ہے، جب وہ وجہ ختم ہو جاتی ہے تو وہ لہر بھی آہستہ آہستہ اپنے اختتام کو پہنچ جاتی ہے۔ جمہوریت کے سمندر میں ایسی بہت سی لہریں بنتی اور بکھرتی رہیں گی، لیکن سمندر اپنی جگہ قائم رہے گا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات