اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 مئی 2025ء) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہوئے خونریز حملے کے ایک ماہ بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعرات کو پاکستان سے متصل بھارت کی شمال مغربی ریاست راجھستان میں ایک عوامی تقریب سے خطاب کیا۔ اپنی تقریر میں مودی نے گزشتہ ماہ یعنی اپریل کی 22 تاریخ کو پہلگام میں ہونے والے حملے ، جس میں 26 افراد ہلاک ہو گئے تھے، جن کی اکثریت ہندوؤں کی تھی، کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس واقعے نے نئی دہلی کو پانیکی تقسیم کے معاہدے کی معطلی پر مجبور کیا تھا۔
سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟
ورلڈ بینک کی ثالثی میں 1960ء میں دونوں پڑوسی ممالک کے مابین پانی کی تقسیم کا 'سندھطاس معاہدہ‘ طے ہوا تھا۔ اس معاہدے کی معطلی کا اعلان بھارت نے اپریل کے حملے کے بعد پاکستان کے خلاف سخت اقدامات کا فیصلہ کرتے ہوئے کیا تھا۔
(جاری ہے)
نئی دہلی کا کہنا تھا کہ یہ حملہ پاکستان کی حمایت سے ہوا۔ پاکستان کی طرف سے تاہم اس الزام کی تردید کی گئی تھی۔
بعد ازاں دونوں پڑوسی ممالک 10 مئی کو جنگ بندی پر عملدرآمد سے پہلے تقریباً گزشتہ تین دہائیوں میں اپنی بدترین فوجی جھڑپوں کے ساتھ جنگ کے دہانے پر کھڑے تھے۔بعد ازاں معاملات بہتر ہوئے اور جنگ بندی کے کچھ روز بعد بھارت کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے ایک بیان میں تصدیق کی، ’’فی الحال دونوں ملکوں کے درمیان فائرنگ کا کوئی تازہ تبادلہ نہیں ہوا اور دونوں فورسز کی کچھ ضروری ری پوزیشننگ عمل میں آئی ہے۔
‘‘سندھ طاس معاہدہ کتنا اہم؟
سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کی 80 فیصد آبادی کو پانی میسر ہوتا ہے۔ تین دریاؤں سے پاکستان میں آنے والا پانی ملک کی زرعی ضروریات کو پورا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ تاہم رواں ماہ پاکستان کے وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ اس کی معطلی سے کوئی ’’فوری اثر‘‘ نہیں پڑے گا۔
جنوبی ایشیا کی دو جوہری ریاستیں بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے پیچیدہ رہے ہیں۔ 1947ء میں تقسیم ہند اور پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک دونوں ممالک تین بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں۔ ان میں سے دو ہمالیہ کے متنازعہ علاقے کشمیرپر ہوئیں۔
ادارت: عاصم سلیم