
سلامتی کونسل: بین الاقوامی قانون کا کم ہوتا احترام تشویشناک، فلیچر
یو این
جمعہ 23 مئی 2025
02:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 مئی 2025ء) امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ لوگوں کا تحفظ اور بین الاقوامی قانون کا احترام دنیا کی نگاہوں کے سامنے ختم ہو رہا ہے۔ گزشتہ سال جنگوں میں 36 ہزار سے زیادہ شہریوں کی ہلاکت ہوئی اور 12 کروڑ 20 لاکھ کو نقل مکانی کرنا پڑی۔
مسلح تنازعات میں شہریوں کے تحفظ پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہریوں کو غیرانسانی سلوک سے بچانے کے لیے گزشتہ صدی میں کھڑی کی گئی بنیادیں لرزاں ہیں جنہیں تحفظ دینا لازم ہے۔
ٹام فلیچر کا کہنا تھا کہ شہریوں کی بقا کے لیے درکار بنیادی ڈھانچے کو جنگی ہدف بنایا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
غیر مساوی انصاف
انہوں نے کونسل کو بتایا کہ 2024 امدادی کارکنوں کے لیے بھی مہلک ترین سال تھا جب 360 کارکنوں کی ہلاکت ہوئی۔
ان میں کم از کم 200 غزہ اور 54 سوڈان میں مارے گئے۔ صحافی بھی جنگی کارراوئیوں کا نشانہ بنے اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے عسکری اہداف منتخب کرنے کی اطلاعات نے بین الاقوامی قانون کی عدم تعمیل اور انسانی نگرانی کے بغیر ٹیکنالوجی سے کام لینے کے تناظر میں سنگین خدشات کو جنم دیا۔انہوں ںے کہا کہ تمام ممالک بین الاقوامی قانون کا احترام کریں جس کے لیے سیاسی مکالمے، تشدد کی عوامی سطح پر مذمت، مسلح افواج کی تربیت اور اسلحے کی ذمہ دارانہ منتقلی جیسے اقدامات اٹھائے جانے چاہئیں۔
انصاف چنیدہ ممالک یا لوگوں کے لیے نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا غیرجانبدارانہ اور غیرسیاسی ہونا ضروری ہے اور عدالتوں کی سالمیت پر حملے ناقابل قبول ہیں۔انہوں نے سلامتی کونسل کے ارکان سمیت تمام ممالک پر زور دیا کہ وہ دنیا بھر میں جاری مسلح تنازعات میں شہریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو روکنے کے لیے سیاسی عزم اور جرات کا مظاہرہ کریں۔
خواتین اور لڑکیوں کے حقوق پر حملہ
یو این ویمن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سیما بحوث نے سلامتی کونسل کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ خواتین اور لڑکیاں ناصرف جنگی حملوں کا نشانہ بنتی ہیں بلکہ ان کے جسم، صحت، فیصلوں اور آوازوں کو بھی ہدف بنایا جاتا ہے۔ بہت سے مسلح تنازعات میں خواتین کا جسمانی استحصال ہوتا ہے جس میں صرف جنسی تشدد ہی نہیں بلکہ ان کے تولیدی حقوق سلب کیے جانا اور انہیں طبی خدمات سے محروم رکھنا بھی شامل ہے۔

سیما بحوث نے کہا کہ غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد 28 ہزار خواتین اور لڑکیاں ہلاک ہو چکی ہیں اور ہزاروں کو بمباری اور محاصرے میں زچگی کے عمل سے گزرنا پڑا جبکہ ان کے لیے بیہوشی کا سامان، بعداز حمل نگہداشت اور صاف پانی جیسی سہولیات بھی موجود نہیں اور انہیں متواتر غذائی قلت، نقل مکانی اور تکالیف کا سامنا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ایسے اقدامات کو جنگ کے عمومی اثرات نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ ان کے تولیدی حقوق پر حملہ ہے اور اس کے ذمہ داروں کا محاسبہ ہونا چاہیے۔ ایسے واقعات اس لیے تواتر سے ہو رہے ہیں کہ ان کے ذمہ دار قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔
سیما بحوث نے کونسل سے کہا کہ وہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو مدد دے جن کے لیے امدادی مالی وسائل کی قلت کے باعث اپنا کام جاری رکھنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔
خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کی حکمت عملی میں انہیں بااختیار بنانے کو خاص اہمیت دینا ضروری ہے کیونکہ جب وہ قائدانہ کردار ادا کرتی ہیں تو ناصرف انہیں تحفظ ملتا ہے بلکہ ان کے خاندان اور معاشرے بھی محفوظ ہو جاتے ہیں اور ترقی پاتے ہیں۔انسانیت کے لیے ڈراؤنا خواب
انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) کی صدر میرجانا سپورلجیرک نے کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی امدادی قانون مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو خصوصی توجہ دینے کا تقاضا کرتا ہے جنہیں خوراک، پانی اور طبی نگہداشت تک رسائی ہونی چاہیے۔
بین الاقوامی امدادی قانون مقبوضہ علاقوں کی آبادی کو ان کے علاقے سے جبری منتقل یا بیدخل کرنے کی ممانعت بھی کرتا ہے۔ ایسے قوانین کو ہمیشہ تحفظ اور ترجیح ملنی چاہیے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ آج دنیا کو ناصرف جنگی قوانین کی عدم تعمیل سے جنم لینے والے بحران کا سامنا ہے بلکہ اجتماعی ضمیر کا بحران بھی درپیش ہے۔ دور حاضر کے میدان ہائے جنگ میں جو کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے وہ طویل عرصہ تک انسانیت کے لیے ڈراؤنا خواب بنا رہے گا۔

انصاف، امن اور سلامتی کی بنیاد
بچوں ک حقوق کے لیے کام کرنے والے غیرسرکاری ادارے سیو دی چلڈرن کی صدر اور سی ای او جانتی سوریپٹو نے کونسل کو بتایا کہ دنیا میں 473 ملین بچے جنگ زدہ علاقوں میں رہتے ہیں جن کے حقوق کی پامالیوں میں غیرمعمولی اضافہ ہو گیا ہے۔
تحفظ اور مدد کے طلب گار لوگوں میں تقریباً نصف تعداد بچوں کی ہے۔ جنگ زدہ علاقوں میں بکھرے گولہ بارود سے بچوں کے ہلاک و زخمی ہونے کا امکان بڑوں کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جنگ سے متاثرہ بچوں کو خوراک، ادویات اور تعلیم دینے کی ضرورت ہے لیکن اس کے لیے اقوام متحدہ کے رکن ممالک، جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ بچوں کو تحفظ دینا آج انصاف کی بنیاد اور کل امن و سلامتی کی بنیاد بنے گا۔
مزید اہم خبریں
-
رواں سال پنجاب بھر میں 5 کروڑ 10 لاکھ سے زائد پودے لگانے کا ہدف مقرر کردیا گیا
-
یوکرین: روسی حملوں میں بچوں سمیت عام شہریوں کی ہلاکت کی مذمت
-
میری کہانی: امدادی کارکن سے پناہ گزین اور پھر وطن واپسی
-
پاکستان اور انڈیا میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر یو این چیف کا اظہار افسوس
-
غزہ: انسانی المیے کی بدترین شکل، بھوک سے ہلاکتوں کا سلسلہ جاری
-
حالیہ حملوں میں جنوبی سوڈان امن عمل کے فوائد ضائع، مارتھا پوبے
-
نیپال سے جرمن خسرے کا خاتمہ، ڈبلیو ایچ او کا اعلان
-
پنجاب میں الیکٹرک گاڑیوں اور بائیکس کیلئے بیٹری چارجنگ انفراسٹرکچر قائم کرنے کا فیصلہ
-
عثمان قاضی کا بیان: ریاستی بیانیہ یا انتہا پسندی کی حقیقت
-
مدنی مسجد تنازع پر اسلام آباد انتظامیہ اور علماء ایکشن کمیٹی میں مذاکرات کامیاب، معاہدہ طے پا گیا
-
خیبرپخونخوا میں متاثرین کی امداد کے لئے این ڈی ایم اے کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، مصطفی کمال
-
او جی ڈی سی ایل کے گھوٹکی میں 50 کروڑ روپے مالیت کے سماجی منصوبے ہیں،علی پرویزملک
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.