سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نےمخصوص نشستوں پر نظر ثانی د رخواستوں کی سماعت کل تک ملتوی کر دی

پیر 26 مئی 2025 22:09

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 26 مئی2025ء) سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نےمخصوص نشستوں پر نظر ثانی د رخواستوں کی سماعت منگل 27مئی تک ملتوی کر دی ۔پیر کو جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں گیارہ رکنی آئینی بینچ نے نظرثانی درخواستوں پر سماعت کی۔سماعت کی کارروائی براہ راست دکھائی گئی۔درخواست گزار کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کیا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں پر کیسے دعوی کیا،سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں ؟،پارلیمنٹ میں آنے والی جماعت میں آزاد امیدوار شامل ہوسکتے ہیں،جو سیاسی جماعت پارلیمنٹ میں نہ ہو اس میں کیسے آزاد لوگ شامل ہوسکتے ہیں۔ اس پر مخدوم علی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کے مطابق آزاد امیدوار ان کے ساتھ شامل ہوگئے تھے۔

(جاری ہے)

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل نے انتحابات میں حصہ لیا تھا۔ مخدوم علی خان نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا ، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین نے خود آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا، سنی اتحاد کونسل نے عام الیکشن نہیں لڑا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آزاد ارکان نے جیتی ہوئی پارٹی میں شامل ہونا تھا۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی اپیل کو متفقہ طور پر مسترد کیا گیا،مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کو ڈی نوٹیفائی کر دیا گیا،ارکان کو ڈی نوٹیفائی کرنے سے قبل کوئی نوٹس نہیں کیا گیا۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ عدالت نے الیکشن کمیشن کے نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دیا تھا۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کے سامنے سنی اتحاد کونسل آرٹیکل 185/3 میں آئے تھے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کے سامنے الیکشن کمیشن کا نوٹیفیکیشن تھا۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ نوٹیفیکیشن سے اگر کوئی متاثرہوتا تھا تو عدالت کو نوٹس کرنا چاہیے تھا،عدالتی فیصلہ میں آرٹیکل 225 کا ذکر تک نہیں ہے،آرٹیکل 225 کے تحت کسی الیکشن پر سوال نہیں اٹھایا جا سکتا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 225 کا اس کیس میں اطلاق کیسے ہوتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ معاملہ مخصوص نشستوں کا معاملہ تھا،مخصوص سیٹیں متناسب نمائندگی پر الاٹ ہوتی ہیں۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ مخصوص نشستوں کی فہرستیں الیکشن سے قبل جمع ہوتی ہیں، کاغذات نامزدگی میں غلطی پر معاملہ ٹریبونل کے سامنے جاتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ کی دلیل مان لیں تو پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار نہیں تھا۔مخدوم علی خان نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت تک مخصوص ارکان کے نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوئے تھے، عدالتی فیصلے موجود ہیں کہ آئین و قانون سے برعکس فیصلہ ناقص ہوگا،عدالت کی ذمہ داری ہے اس غلطی کو درست کیا جائے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر اکثریتی ججز یہ سمجھیں کہ فیصلہ درست ہے،نظر ثانی درست ہے،اگر ایسی صورتحال بنے تو کیا ہوگا؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ ایسی صورت میں نظر ثانی مسترد ہو جائے گی۔

جسٹس شاہد بلال حسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے کیس میں فریق تھی،کیا جو جماعت فریق نہ ہو اسے نشستیں دی جاسکتی ہیں۔ مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ جو سیاسی جماعت فریق نہ ہو اسے نشستیں نہیں مل سکتیں،جسٹس یحیی آفریدی نے کہا تھا پی ٹی آئی کیس میں فریق نہیں تھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت الیکشن کمیشن کے کردار کو بھی ہم نے دیکھنا تھا،نشستیں دینا نہ دینا اور مسئلہ ہے الیکشن کمیشن کا کردار بھی دیکھنا تھا،کوئی فارمولا نہیں تھا کہ درمیان کا راستہ چنا جائے، میں نے دستیاب ریکارڈ کا جائزہ لیا ہے۔

جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیئے کہ یہ ریکارڈ عدالت کے سامنے نہیں تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ ریکارڈ عدالت کی جانب سے الیکشن کمیشن سے مانگا گیا تھا۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ جسٹس نعیم افغان نے اکثریتی فیصلے سے متعلق لکھا کہ آئین کو دوبارہ تحریر نہیں کیا جاسکا،جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس یحیی آفریدی نے بھی لکھا کہ ٹائم لائن کی قانونی شرائط پوری کرنا لازمی ہے، آئین کے آرٹیکل 187 کا کوئی دائرہ اختیار نہیں ہے،مکمل انصاف آئین کی ایک شق ہے جس میں سپریم کورٹ کسی تنازع پر مکمل انصاف کرتی ہے،مکمل انصاف کا اختیار استعمال کرکے تیسرے فریق کو جو عدالت کے سامنے نہ ہو ریلیف نہیں دیا جاسکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ یہ سپریم کورٹ ہے سول کورٹ نہیں،یہاں عوام کے حق رائے دہی کا معاملہ تھا۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ اپنے اقلیتی فیصلے میں جسٹس یحیی آفریدی نے لکھا کہ مکمل انصاف کا اختیار استعمال کرنا خطرناک ہوسکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس یحیی آفریدی نے لکھا کہ مکمل اختیار اہم معاملہ ہے احتیاط سے استعمال کیا جائے،آئین کے آرٹیکل 185 میں سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار کیا ہے؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ یہ عدالت ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل کے دائرہ اختیار میں تھی، سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کا کیس بنیادی دائرہ اختیار جو کہ 184/3 کا ہے، میں نہیں سنا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ یہ عدالت مکمل انصاف کا اختیار کس حد تک استعمال کر سکتی ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سنی اتحاد کونسل تو ایک نشست بھی نہیں جیت سکی تھی، سنی اتحاد کے چیئرمین حامد رضا نے تو خود اپنی جماعت سے الیکشن نہیں لڑا، تحریک انصاف تو فریق بھی نہیں تھی پھر کیسے نشستیں دی جاسکتی ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیاسی جماعت الیکشن نہیں لڑتی امیدوار لڑتے ہیں،انتخابی نشان عوام کی آگاہی کیلئے ہوتاہے،انتخابی نشان نہ ہونے سے کسی کو انتخابات سے نہیں روکا جاسکتا، سنی اتحاد کونسل کے بجائے آزاد امیدوار اگر پی ٹی آئی میں رہتے تو آج مسئلہ نہ ہوتا، سنی اتحاد کونسل اپنے انتخابی نشان پر الیکشن لڑتی تو پھر بھی مسئلہ نہ ہوتا۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ اکثریتی فیصلے میں مکمل انصاف کیساتھ نظریہ آئینی وفاداری بھی استعمال کیا گیا،آئین سے وفاداری کے نظریہ کی بات جذباتی لگتی ہے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیئے کہ کیا پشاور ہائیکورٹ یا الیکشن کمیشن میں پی ٹی آئی نے نوٹیفکیشن چیلنج کیے۔ مخدوم علی خان نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے نوٹیفکیشن چیلنج نہیں کیے تھے، مخصوص نشستوں کے اکثریتی فیصلے میں آئین کو دوبارہ تحریر کیا گیا،نظرثانی درخواستیں منظور کی جائیں،نظرثانی کیس میں عدالت اپنی رائے تبدیل کر سکتی ہے۔

بعدازاں وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوگئے اور الیکشن کمیشن کے وکیل نے اپنے تحریری دلائل بھی جمع کرا دیئے،مسلم لیگ ن کے وکیل کی جانب سے بھی تحریری دلائل جمع کروا دئیے گئے ۔پیپلز پارٹی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پیپلزپارٹی منگل کو تحریری دلائل جمع کرا دے گی۔ کل سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی دلائل دیں گے۔ بعد ازاں سماعت منگل 27 مئی تک ملتوی کردی گئی ۔