Live Updates

ججز ٹرانسفر کے عمل میں 4 فورمز سے رائے لی گئی، ایک درجے پر بھی انکار ہو تو ٹرانسفر نہیں ہوسکتا، آئینی بینچ

پیر 26 مئی 2025 22:46

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 مئی2025ء)سپریم کورٹ آئینی بینچ میں زیر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس میں وکیل فیصل صدیقی نے دلائل مکمل کر لیے جس کے بعد اٹارنی جنرل آف پاکستان نے دلائل کا آغاز کردیا، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس میں کہا ہے کہ ججز ٹرانسفر کے عمل میں 4جوڈیشل فورمز سے رائے لی گئی، اگر ایک درجے پر بھی انکار ہو تو جج ٹرانسفر نہیں ہوسکتا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔دوران سماعت وکیل فیصل صدیقی عدالت میں پیش ہوئے اور اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا قیام آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت ہوا ہے، قانون میں صوبوں سے ججز کی تقرری کا ذکر ہے، تبادلے کی اجازت نہیں۔

(جاری ہے)

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ آپ کا کہنا ہے اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججز تبادلے پر نہیں آ سکتی فیصل صدیقی نے موقف اپنایا کہ تبادلہ ہو بھی جائے تو مستقل نہیں ہوگا، تبادلے پر واپس جانے پر جج کو دوبارہ حلف نہیں اٹھانا ہوگا، اگر دوبارہ حلف اٹھایا بھی جائے تو پہلے حلف کا تسلسل ہوگا۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ اگر بھارت کی طرح یہاں بھی ہائیکورٹس ججز کی ایک سنیارٹی لسٹ ہو تو کیا ہوگا جسٹس شکیل حمد نے ریمارکس دیے کہ سنیارٹی لسٹ یکساں ہو تو کوئی جھگڑا ہی نہیں ہوگا، وکیل فیصل صدیقی نے موقف اپنایا کہ مشترکہ سنیارٹی لسٹ پر سب ججز نتائج سے آگاہ ہونگے، جج کا مستقل تبادلہ کرنا جوڈیشل کمیشن کے اختیارات لینے کے مترادف ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 175 اے کی وجہ سے تبادلے کا آرٹیکل 200 ختم ہوگیا کیا آرٹیکل 175 اے کے بعد ججز کا تبادلہ نہیں ہوسکتا بھارت میں تو جج کا تبادلہ رضامندی کے بغیر کیا جاتا ہے۔فیصل صدیقی نے موقف اختیار کیا کہ بھارت میں ججز کی سنیارٹی لسٹ مشترکہ ہے، ججوں کی سنیارٹی لسٹ دہائیوں میں بنتی ہے، ٹرانسفر کرکے ججوں کی سنیارٹی لسٹ راتوں رات تبدیل نہیں کی جاسکتی، راتوں رات سنیارٹی لسٹ ایگزیکٹو کے ذریعے تبدیل کرنا غاصبانہ عمل ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ججز ٹرانسفر کے لیے 2 ہائیکورٹس کے چیف جسٹسز اور چیف جسٹس آف پاکستان نے رائے دی، ایک جج کے ٹرانسفر کے عمل میں 4 درجات پر عدلیہ کی شمولیت ہوتی ہے، اگر ایک درجے پر بھی انکار ہو تو جج ٹرانسفر نہیں ہوسکتا، اگر ٹرانسفر ہونے والا جج انکار کردے تو عمل رک جائے گا، اگر متعلقہ ہائیکورٹ کا چیف جسٹس یا جس ہائی کورٹ میں ٹرانسفر ہونی ہے اسکا چیف جسٹس انکار کردے تو بھی عمل رک جائے گا، پہلے تین مراحل کے بعد اگر چیف جسٹس پاکستان انکار کر دیں تو بھی عمل رک جائے گا، اگر سب کچھ ایگزیکٹو کے ہاتھ میں ہوتا تو الگ بات تھی، ججز ٹرانسفر کے عمل میں چار جوڈیشل فورمز سے رائے لی گئی۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ قانون کے عمل میں بدنیتی کا مظاہرہ کیا گیا، سینیارٹی کے معاملے میں عدلیہ کو اندھیرے میں رکھا گیا۔وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 200 کے تحت ججز کا ٹرانسفر مستقل بھی ہوتا ہے، عارضی بھی، عارضی ٹرانسفر کا نوٹی فیکیشن میں ذکر ہوتا ہے، عارضی ٹرانسفر پر ججز کو اضافی مراعات بھی ملتی ہیں، مستقبل ٹرانسفر پر سرکاری رہائش ملتی ہے، ٹائم باؤنڈ تبادلے پر جج اپنی اصل ہائیکورٹ میں واپس چلا جاتا ہے، اگر جج کا تبادلہ مستقل ہو تو پہلی والی ہائیکورٹ سے اسکی سیٹ خالی ہو جاتی ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلے پر آئے ججز کو مستقل سرکاری رہائش فراہم کی گئی، کوئی اضافی الاونسز نہیں مل رہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹرانسفر پر آئے ججز کی مدت ملازمت کی معیاد ختم نہیں ہوئی، تبادلہ پر آئے ججز کو نیا حلف اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے، جج کو حلف تقرری پر اٹھانا پڑتا ہے، ججز تبادلے پر آئے، نئی تقرری نہیں ہوئی۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کیا اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر پر آئے ججز کی سیٹیں خالی ہوگئیں جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے ہر جج اپنی ہائیکورٹ کا حلف اٹھایا ہے، ہر ہائیکورٹ کا اپنا دائرہ اختیار ہوتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا آئین کے تھرڈ شیڈول میں اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کے الگ حلف کا ذکر نہیں، آئین میں حلف کے لیے ہائیکورٹس کا ذکر ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز نے وہی حلف لیا جو تبادلے پر ججز نے تقرری کے بعد اٹھایا تھا، سپریم کورٹ ہائیکورٹس کے تمام ججز کا حلف ایک جیسا ہے۔جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ کیا آرٹیکل 200 کے تحت تبادلے پر نیا حلف نہیں ہوگا اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 200 میں نئے حلف اٹھانے کا کوئی ذکر نہیں، جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ ججز ٹرانسفر کی آخری سمری میں حلف نہ اٹھانے کا ذکر کیوں کیا گیا سنیارٹی اور حلف کو ججز ٹرانسفرز کی ابتدائی سمریوں میں چھپایا گیا۔

اٹارنی جنرل نے موقف اپنایاکہ ججز کی سنیارٹی پر سپریم کورٹ کا عدالتی فیصلہ موجود ہے، اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ عدالت کے سامنے 5ججز کی درخواست ہے، 5 ججز میں صرف جسٹس محسن اختر کیانی چیف جسٹس بننے کی دوڑ میں ہیں۔جسٹس شکیل احمد نے استفسار کیا کہ کیا ججز کا حلف اور سنیارٹی سیکریٹری قانون طے کرے گا کیا کسی نے سیکریٹری قانون سے حلف اور سنیارٹی پر رائے مانگی تھی سیکرٹری لا نے سمری میں سنیارٹی اور حلف کی وضاحت کیوں کی سیکریٹری قانون کے معاملے پر عدالت نے اٹارنی جنرل سے جواب طلب کرلیا۔

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ بتایا جائے سیکریٹری وزارت قانون کنٹریکٹ کی کتنی ٹرمز انجوائے کر چکے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیر اعظم کو ایڈوائس کے لیے بھیجی گئی سمری انتظامی نوعیت کی ہے، عدالت کے سوالات پر جواب دوں گا۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت (آج)منگل تک ملتوی کردی۔ اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات