اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 31 مئی 2025ء) گزشتہ جمعہ کو جرمنی کے شہر ہیمبرگ کے مرکزی ٹرین اسٹیشن پر چاقو کے حملے میں 18 افراد زخمی ہوئے تھے۔ ان میں سے پندرہ پر چاقو سے وار کیا گیا، جبکہ تین دیگر چوٹوں سے زخمی ہوئے۔ جرمن خبر رساں ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق چار افراد کو جان لیوا چوٹیں آئیں لیکن اب ان کی حالت مستحکم ہے۔
مشتبہ شخص ایک 39 سالہ خاتون ہے، جس کے بارے میں ہیمبرگ حکام کا خیال ہے کہ وہ "نفسیاتی ایمرجنسی کا سامنا کر رہی تھی۔
"بعد میں مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ پولیس نے دو راہ گیروں کی "فوری مداخلت" کی تعریف کی، جنہوں نے خاتون کو روکنے، اس سے چاقو چھننے اور اسے اُس وقت تک پکڑے رکھا، جب تک کہ حکام اسے گرفتار کرنے کے لیے نہیں پہنچ گئے۔
(جاری ہے)
ان راہ گیروں میں سے ایک محمد المحمد، ایک شامی نوجوان ہے، جو 2022ء میں جرمنی آیا تھا۔ کئی میڈیا آؤٹ لیٹس کی طرف سے اس تارک وطن کی جرات کو رپورٹ کرنے کی وجہ سے وہ امیگریشن کے بارے میں قومی بحث کا مرکز بن گیا، جس میں اکثر دائیں بازو کے بیانیے کا غلبہ ہے۔
جرمن ہفتہ وار نیوز میگزین ڈیر اشپیگل نے حال ہی میں المحمد پر ایک خصوصی مضمون شائع کیا۔ انہوں نے اپنی رپورٹ کے لیے جو لیڈ امیج دکھائی تھی وہ خود المحمد نے فراہم کی تھی۔ اس کے بعد سے استصویر میں ہیرا پھیری کی گئی اور اسے غلط معلومات آن لائن پھیلانے کے لیے دوبارہ تیار کیا گیا۔
دائیں بازو کے جذبات کی نمائندگی کرتی پوسٹس
اصل تصویر میں المحمد برلن میں برانڈنبرگ گیٹ کے سامنے کھڑے ہوئے تھے۔
آن لائن صارفین نے اس کی مشابہت کو واشنگٹن ڈی سی یا ماسکو کے بیک گراؤنڈ کے ساتھ جوڑ دیا۔ان پوسٹس کے ساتھ طنزیہ تبصرے بھی کیے گئے کہ 'محمد المحمد کی بدولت (روس اور یوکرین کے درمیان) امن مذاکرات اب شروع ہو سکتے ہیں‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب تک ان کے بارے میں میڈیا رپورٹس کو حد سے زیادہ مثبت موڑ دیا گیا۔
اونا ٹِٹز امادیو انتونیو فاؤنڈیشن میں میڈیا ماہر ہیں، جو دائیں بازو کی انتہا پسندی اور نسل پرستی پر گہری نظر رکھتی ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "یہ حقیقت کہ ایک شامی شخص (اس کہانی میں) بچانے والا کردار ہے، اُس عالمی نظریے کے مطابق نہیں ہے، جس میں پناہ گزینوں اور خاص طور پر شامی پناہ گزینوں کو پرتشدد حملہ آوروں اور چاقو سے حملوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔" ان کے بقول، "اس طرح کی پوسٹس کا مقصد دائیں بازو کے پاپولسٹ جذبات کی بازگشت ہے۔"جرمن جریدے بِلڈ نے محمد المحمد کی ایک تصویر بھی جاری کی۔
اس تصویر کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کر کے اسے غلط معلومات پھیلانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ان پوسٹوں نے نہ صرف المحمد کے بہادرانہ عمل پر سوالیہ نشان یا عدم اعتماد کا اظہار کیا بلکہ پیش کردہ حقائق کی سچائی کے بارے میں لوگوں کو بے یقینی کا شکار بنا دیا۔
اے آئی تصاویر سے گریز
اگرچہ باوثوق میڈیا آؤٹ لیٹس نے اپنی رپورٹنگ میں المحمد کی AI سے تیار کردہ تصاویر کو استعمال کرنے سے گریز کیا، لیکن اس کے باوجود بھی جعلی تصاویر کا اثر میڈیا کو بدنام کرنے اور ان پر جھوٹی معلومات پھیلانے کے الزام کے طور پر پڑتا ہے۔
نتیجتاﹰ بہت سے آن لائن صارفین اس بات پر شک کرنے کی طرف مائل ہوگئے کہ محمد المحمد نے واقعی ہیمبرگ چاقو کے حملے میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا، یا یہ کہ میڈیا نے اسے درست طریقے سے نہیں پیش کیا۔
میڈیا کے ماہر ٹِٹز جعلی اور غلط معلومات سے جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے طریقوں میں بھی مہارت رکھتی ہیں۔ وہ نشاندہی کرتی ہیں کہ پریس کی اس طرح کی بدنامی اس واقعے کے نتیجے میں ایک سازشی عنصر کا اضافہ کرتی ہے۔
حکام اور میڈیا کی ساکھ پر سوال
دائیں بازو کے جرمن جریدے ایکسٹرا 24 نے اسی پہلو کو اجاگر کیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ المحمد کا حقیقی وجود ہی نہیں ہے۔ ان کے مطابق، "موجودہ پولیس رپورٹس میں محمد المحمد کا ذکر کیوں نہیں ہے حالانکہ پولیس نے بظاہر انہیں 'انعام کے طور پر صرف کایپیچینو' (کافی) پیش کی تھی؟"
اس سوال کا تعلق اشپیگل کی رپورٹ سے ہے، جس میں المحمد نے صحافیوں کو بتایا کہ پولیس نے مشتبہ حملہ آور کو گرفتار کرنے کے بعد اسے پکڑنے میں مدد کا شکریہ ادا کرنے کے لیے اسے کافی خرید کر دی تھی۔
پولیس کیا کہتی ہے؟
ڈی ڈبلیو کی فیکٹ چیک ٹیم نے مزید جاننے کے لیے ہیمبرگ پولیس سے رابطہ کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ "گواہوں، متاثرین، مشتبہ افراد، وغیرہ کے لیے، اصولی طور پر، پریس کو دی گئی پولیس رپورٹس میں نام ظاہر نہ کرنا بالکل عام بات ہے۔ ایک فرد کے ذاتی وقار، رازداری اور شناخت کے حقوق، جنہیں قانون نافذ کرنے والے ادارے کو ہر وقت برقرار رکھنا چاہیے، اس عمل کی بنیاد ہیں۔
"پولیس نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ان کی رپورٹوں میں جن راہ گیروں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے ایک کا نام محمد المحمد تھا۔
شامی نوجوان کے گرد پھیلی ان غلط معلومات نے ٹِٹز کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ وہ کہتی ہیں "یہ سب کچھ ایک غیر یقینی کی فضا پیدا کرتا ہے، جس میں حقیقت پر فوراﹰ سوالیہ نشان لگا دیا جاتا ہے۔"
ادارت: عاطف بلوچ