’ہمیں انصاف فراہم کیا جائے‘ ثناء یوسف کے والد کی حکومت اور اداروں سے اپیل

میری کسی سے کوئی دشمنی نہیں، میرا تعلق چترال سے ہے اور سب جانتے ہیں چترالی لوگ کتنے امن پسند ہوتے ہیں وہ کسی تنازع اور لڑائی جھگڑے میں نہیں پڑتے؛ مقتولہ ٹک ٹاکر کے والد کا بیان

Sajid Ali ساجد علی بدھ 4 جون 2025 12:27

’ہمیں انصاف فراہم کیا جائے‘ ثناء یوسف کے والد کی حکومت اور اداروں ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 04 جون 2025ء ) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قتل کی جانے والی ٹک ٹاکر ثناء یوسف کے والد نے حکومت اور اداروں سے انصاف فراہم کرنے کی اپیل کردی۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد کے سیکٹر جی تیرہ میں 17 سالہ معروف ٹک ٹاکر ثناء یوسف کو قتل کردیا گیا جس کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ایک شخص کو گرفتار کرلیا، اس واقعے سے متعلق ثناء یوسف کے والد کا اپنے بیان میں کہنا ہے کہ میں ایک سرکاری ملازم ہوں، میری کسی سے کوئی دشمنی نہیں، میرا تعلق چترال سے ہے اور سب جانتے ہیں کہ چترالی لوگ کتنے امن پسند ہوتے ہیں، وہ کسی تنازع اور لڑائی جھگڑے میں نہیں پڑتے، تاہم میری حکومت سے درخواست ہے مجھے انصاف فراہم کیا جائے اس مقصد کے لیے یہ اداروں کا کام ہے کہ وہ اس واقعے کی تحقیقات کریں۔

(جاری ہے)

بتایا جارہا ہے کہ ٹک ٹاکر ثناء یوسف کے قتل کے مبینہ ملزم کو فیصل آباد سے گرفتار کیا گیا، اس حوالے سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے آئی جی اسلام آباد سید علی ناصر رضوی نے بتایا کہ ملزم عمر حیات لوئر مڈل کلاس کا 22 سال کا بے روزگار لڑکا ہے، وہ کافی عرصے سے سوشل میڈیا پر ثناء سے دوستی کی کوشش کر رہا تھا جس کے لیے وہ مقتولہ کو بار بار پروپوز کرتا رہا لیکن ثناء اس سے دوستی نہیں کرنا چاہتی تھی اور وہ اسے مسلسل ریجکٹ کر رہی تھی جس سے ملزم عمر عرف کاکا دلبرداشتہ ہو گیا اور ثناء کو قتل کر دیا۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ ملزم نے بارہا ثناء یوسف سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، 29 مئی ثناء یوسف کی سالگرہ کا دن تھا، اُس دن بھی ملزم نے کئی گھنٹے تک رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ثناء یوسف نے اسے بار بار مسترد کیا، اس کے بعد 2 جون کو بھی ملزم کی جانب سے 7 سے 8 گھنٹے تک رابطے کی کوشش کی گئی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکا جس کے بعد اس نے قتل کی منصوبہ بندی کی اور مقتولہ کو اپنے پستول کے ساتھ قتل کردیا جس کے لیے 2 تاریخ کو شام 5 بجے ٹک ٹاکر کو دو گولیاں گھر کے اندر ماری گئیں۔