سعودی عرب ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ کا مرکز بن جائے گا؟

DW ڈی ڈبلیو اتوار 8 جون 2025 20:00

سعودی عرب ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ کا مرکز بن جائے گا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 08 جون 2025ء) کچھ لوگوں کے لیے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کم امریکی محصولات کی وجہ سے بین الاقوامی کمپنیوں کے لیے ایک بہتر مقام ہیں۔ چین اور دیگر ایشیائی ممالک میں پیدا ہونے والی اشیاء پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بہت زیادہ محصولات عائد کیے جانے کے بعد سے ''میڈ ان سعودی عریبیہ‘‘ کی گونج سنائی دینے لگی۔

ایلن والڈ، ایک ماہر تاریخ 2018 ء میں شائع ہونے والی کتاب ''سعودی، انکورپوریٹڈ: دی عربین کنگڈم پرسیوٹ آف پرافٹ اینڈ پاور‘‘ کے مصنف ہیں، نے اپریل میں Middle East Eye نامی ایک میڈیا آؤٹ لیٹ کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ''سعودی عرب کو چاہیے کہ فوری طور سے اپنے تجارتی نمائندوں کو ٹرمپ انتظامیہ کے پاس بھیجے جو یہ پوچھے کہ چین امریکہ کو کیا کچھ فراہم کرتا رہا ہے۔

(جاری ہے)

سعودی عرب اب وہ تمام اشیا اپنے ہاں تیار کرے گا۔‘‘

چین اور دیگر ممالک بشمول ویتنام اور تھائی لینڈ، ایڈیڈاس سے لے کر ایپل تک، بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ مینوفیکچرنگ کے تمام بڑے مراکز ہیں، جو وہاں لیپ ٹاپ سے لے کر ٹریک سوٹ تک سب کچھ بناتے ہیں۔ لیکن اپریل میں ٹرمپ انتظامیہ نے ان پر بہت زیادہ ڈیوٹی عائد کر دی۔

کچھ دیگر قومیں ٹرمپ کے سخت ترین ٹیرفس سے بچنے میں کامیاب ہوگئیں۔

ٹرمپ نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر صرف 10 فیصد ٹیرف عائد کیے۔

گذشتہ چند کے دوران جب سے امریکہ اور چین کے تجارتی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی بہت سے بین الاقوامی تجارتی کاروباری کمپنیوں کی توجہ دیگر آپشنز کی طرف مبذول ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تھائی لینڈ اور ویتنام جیسے ممالک ان شعبوں میں اس وقت بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے دیگر اہم ممالک

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دونوں تیل سے ماورا اپنی معیشتوں کو متنوع بنانے اور مینوفیکچرنگ کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، خاص طور پر ہائی ٹیک سیکٹر میں۔

متحدہ عرب امارات نے 2021ء میں جو تجارتی پیکیج لانچ کیا تھا اس سے صنعتی سیکٹر میں قومی آمدنی میں مقامی صنعتی شعبے کی شراکت میں 300 ارب اماراتی درہم یا 72 بلین یورو تک اضافہ ہوا۔ سعودی عرب میں بھی وژن 2030ء میں مقامی مینوفیکچرنگ اور صنعت کی ترقی پر اسی طرح توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

دنیا کی چند سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں جیسے کے امریکی کمپنی ڈیل اور ایچ پی کے بارے میں پہلے ہی اطلاعات ہیں کہ یہ سعودی عرب میں نئی فیکٹریوں کے لیے موزوں مقامات کی کھوج میں ہیں۔

جبکہ چینی فرم Lenovo وہاں کمپیوٹر اور سرور اسمبلی کا کارخانہ بنا رہی ہے اور سرکاری فنڈنگ سے چلنے والی پبلک انوسٹمنٹ فنڈ کی ملکیت، سعودی کمپنی Alat جس کی مالی اعانت تقریباً 88 بلین یورو ہے، جاپان کے سافٹ بینک گروپ کے ساتھ صنعتی روبوٹکس کے شعبے میں تعاون کر رہی ہے جسے بعد میں اسمبلی لائنوں پر مقامی مزدوروں کی کمی کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سعودی بظاہر ایپل کے آئی فونز کے بڑے سپلائرز فاکسکن اور تائیوان کے کوانٹا کمپنی ، جوDell کی پسند کے کمپیوٹرز اور ان کے پرزے بناتے ہیں، کو بھی اپنے ساتھ تعاون کے لیے آمادہ کیا ہے۔

برطانوی تھنک ٹینک چھیتھم ہاؤس کے ایک ایسوسی ایٹ فیلو ڈیوڈ بٹر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''درجنوں ممالک امریکہ کو ایکسپورٹ کرنے والے ایشیائی ممالک پر زیادہ ٹیرف لگنے کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس اُمید پر کہ وہ امریکی مارکیٹ تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔

‘‘

بڑے کاروباروں کی محفوظ پناہ گاہ

قطر میں قائم مڈل ایسٹ کونسل آن گلوبل افیئرز، یا ایم ای کونسل کے ڈائریکٹر ریسرچ نادر کبانی کہتے ہیں،''سعودی عرب جیسے ممالک خود کو اعلیٰ ٹیرف سے بچنے یا اپنے اردگرد کی غیر یقینی صورتحال کو کم کرنے کی کوشش کرنے والے کاروباروں کے لیے نسبتاً محفوظ پناہ گاہیں بنا سکتے ہیں۔

‘‘

کبانی نے مزید کہا کہ سعودی عرب میں بہت سی صفات ہیں جو اس کام کی انجام دہی میں مددگار ثابت ہوں گی۔ ان کے قول،''سعودی عرب کے پاس تیل سمیت اور اس کے علاوہ قدرتی وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں۔ اس کی ایک بڑی مقامی مارکیٹ ہے۔ اس کی جغرافیائی حیثیت ایشیا، افریقہ اور یورپ کے درمیان ایک پل کی ہے اور اس کی حکومت معاشی تنوع کی کوششوں کو فعال طور پر سپورٹ کرتی ہے۔ اس کے پاس معقول حد تک ترقی یافتہ انفراسٹرکچر بھی ہے اور یہ ہر طرح کے ہنرمند تارکین وطن کارکنوں کو راغب کرنے کے لیے تیار بھی ہے۔‘‘

ادارت: عاطف توقیر