Live Updates

)بلوچستان ایک دہائیوں پر محیط محرومی، نظراندازی، اور غیر منصفانہ وسائل کی تقسیم کا شکار رہا ہے، مولانا عبدالواسع

ہفتہ 14 جون 2025 21:45

$کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 14 جون2025ء) امیر جمعیت علما اسلام بلوچستان سینیٹر مولانا عبدالواسع نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کے تناظر میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان ایک دہائیوں پر محیط محرومی، نظراندازی، اور غیر منصفانہ وسائل کی تقسیم کا شکار رہا ہے۔ ایسے میں اگر آنے والا بجٹ بھی سابقہ ادوار کی روش پر چلتا ہے تو یہ صوبے کے عوام کے ساتھ ایک اور مذاق ہوگا۔

ہمیں اندیشہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بجٹ بھی صرف اشرافیہ، بیوروکریسی، اور بااثر طبقات کے مفادات کو مقدم رکھ کر ترتیب دیا جائے، جبکہ عام آدمی کے مسائل، محرومی، اور ضروریات کو فائلوں کے نیچے دبا دیا جائے۔مولانا عبدالواسع نے کہا کہ آج بلوچستان کا کسان شدید مشکلات کا شکار ہے۔

(جاری ہے)

پانی کی قلت، مہنگی کھاد، ناقص بیج، موسمیاتی اثرات، اور منڈیوں تک رسائی نہ ہونا ایسے مسائل ہیں جنہوں نے زراعت کو بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔

اگر بجٹ میں زراعت کے لیے سبسڈی، قرضوں میں نرمی، اور زرعی انفراسٹرکچر کے لیے عملی اقدامات شامل نہ کیے گئے تو یہ کھیتی باڑی سے وابستہ لاکھوں خاندانوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔ صوبے میں زراعت کی بحالی اور تحفظِ خوراک کے لیے سنجیدہ اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ تعلیم کا شعبہ بلوچستان میں تباہی کے دہانے پر ہے۔ سینکڑوں اسکول صرف عمارتوں کی صورت میں موجود ہیں، اساتذہ کی کمی، سہولیات کی عدم دستیابی، اور معیاری تعلیم سے محرومی بچوں کا مستقبل تاریک کر رہی ہے۔

ایسا نہ ہو کہ بجٹ میں تعلیم کے نام پر صرف ظاہری ترقی دکھا کر اصل خرابیوں پر پردہ ڈال دیا جائے۔ ہر ضلع میں اساتذہ کی بھرتی، اسکولوں کو فعال کرنا، اور طلبہ کو اسکالرشپ مہیا کرنا اب ایک مجبوری نہیں بلکہ ناگزیر ضرورت بن چکی ہے۔صحت کے شعبے کا حال بھی اس سے مختلف نہیں۔ اضلاع میں بنیادی مراکز صحت غیر فعال ہیں، ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی ہے، ادویات کی عدم دستیابی نے مریضوں کو در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیا ہے۔

بلوچستان کی خواتین زچگی کے دوران موت کے خطرات سے دوچار ہیں اور دیہی علاقوں میں صحت کا کوئی موثر نظام موجود نہیں۔ بجٹ میں ہسپتالوں کی فعالیت، ڈاکٹرز کی تعیناتی، اور جدید طبی سہولیات کی فراہمی کو عملی شکل دی جانی چاہیے، ورنہ ترقی کے تمام دعوے بے بنیاد ثابت ہوں گے۔مزید براں انھوں نے خاص طور پر نوجوانوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج بلوچستان کا نوجوان سب سے زیادہ مایوس، نظرانداز اور بے روزگار ہے۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد نوکری کا کوئی راستہ نہیں، ہنر نہیں سکھایا جاتا، اور حکومتی سطح پر کسی طرح کی رہنمائی یا سپورٹ دستیاب نہیں۔ بجٹ میں نوجوانوں کے لیے انٹرن شپ پروگرام، ہنر مند تربیتی مراکز، سرکاری ملازمتوں میں شفافیت، اور کاروبار کے آغاز کے لیے مالی معاونت کو شامل کیا جائے، وگرنہ یہی نوجوان احساس محرومی کے ساتھ ریاست سے بدظن ہوتا جائے گا۔

انھوں نے کہاکہ پاک افغان اور پاک ایران بارڈرز کی مسلسل بندش نے سرحدی علاقوں میں معاشی قحط برپا کر دیا ہے۔ ان علاقوں کے لاکھوں افراد تجارت، آمد و رفت، اور بارڈر ایکٹیویٹی پر انحصار کرتے تھے، جو آج بے روزگار ہو چکے ہیں۔ اگر بجٹ میں بارڈر ریگولرائزیشن، مقامی کاروبار کی معاونت، اور قانونی تجارت کے فروغ کے لیے کوئی پالیسی نہیں آتی تو یہ سرحدی علاقوں کے ساتھ ظلم کے مترادف ہوگا۔

بلوچستان کے معدنی ذخائر پوری قوم کی دولت ہیں مگر ان سے منسلک مزدور، مقامی برادریاں، اور متاثرہ علاقے نہ صرف نظرانداز ہو رہے ہیں بلکہ انہیں تحفظ بھی میسر نہیں۔ بجٹ میں مادنی شعبے میں مقامی شراکت، روزگار، سیفٹی، اور ماحولیاتی تحفظ کو لازما شامل کیا جانا چاہیے تاکہ صرف کمپنیاں فائدہ نہ اٹھائیں بلکہ بلوچستان کے عوام بھی مستفید ہوں۔

انھوں نے کہاکہ تاجر برادری اس وقت بداعتمادی کا شکار ہے۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں، ٹیکسوں کے بوجھ، اور سرکاری اداروں کی بے جا مداخلت نے کاروباری ماحول کو خراب کر دیا ہے۔ بجٹ میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے تاجروں کے لیے ٹیکس ریلیف، بلاسود قرضے، اور مارکیٹ سیکیورٹی کے لیے واضح اقدامات ناگزیر ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی خواتین کو بجٹ سازی کے عمل میں بھی نظرانداز کیا جاتا ہے۔

گھریلو تشدد، صحت کی سہولیات کی کمی، اور معاشی خودمختاری سے محرومی نے خواتین کو غیرمحفوظ کر دیا ہے۔ بجٹ میں خواتین کی تعلیم، طبی سہولیات، ہنر سکھانے کے مراکز، اور کاروباری معاونت کے لیے مخصوص فنڈز مختص کیے جائیں۔مولانا عبدالواسع نے اقلیتی برادری کے حقوق کی طرف بھی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ ان کے مذہبی مقامات کا تحفظ، تعلیم، روزگار اور مساوی مواقع کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے، اور بجٹ میں اس کا واضح اظہار ہونا چاہیے۔

امن و امان کے بغیر ترقی محض خواب ہے۔ پولیس، لیویز، اور دیگر اداروں کی استعداد کار بڑھانے، مقامی افراد کو بھرتی کرنے، اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے بھی بجٹ میں واضح اقدامات درکار ہیں۔انہوں نے ماحولیاتی مسائل پر بھی بات کی اور کہا کہ بلوچستان موسمیاتی تبدیلی، خشک سالی، اور پانی کے بحران سے براہِ راست متاثر ہو رہا ہے۔

اگر شجرکاری، پانی کے ذخیرے، اور ماحول دوست پالیسیوں پر بجٹ میں توجہ نہ دی گئی تو آنے والے دن مزید خطرناک ہوں گے۔صوبائی امیر نے حکومت کو انتباہ کیا کہ یہ بجٹ صرف مالیاتی معاملہ نہیں، بلکہ بلوچستان کے مستقبل کا تعین کرنے والا ایک دستاویز ہے۔ اگر اس میں عوامی مفادات، محرومیوں کا ازالہ، اور شفاف ترجیحات کا عکس نظر نہ آیا تو جمعیت علما اسلام خاموش نہیں رہے گی۔ ہم ہر جمہوری، سیاسی، اور آئینی راستے سے عوامی آواز بنیں گے اور ایسا بجٹ کسی صورت قبول نہیں کریں گے جو چند خاندانوں کے لیے ریلیف اور عوام کے لیے مایوسی کا پیغام ہو۔
Live بجٹ 26-2025ء سے متعلق تازہ ترین معلومات