Live Updates

اسلام آباد کے علاقائی بلڈ سینٹر کی ’پراسرار بندش‘ اور اس کے پیچھے چھپی کہانی!

DW ڈی ڈبلیو اتوار 15 جون 2025 12:20

اسلام آباد کے علاقائی بلڈ سینٹر کی ’پراسرار بندش‘ اور اس کے پیچھے ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 15 جون 2025ء) یہ بلڈ سینٹر، جو ملک بھر کے 15 علاقائی مراکز کا حصہ ہے، جرمن حکومت کے تعاون سے قائم کیا گیا تھا تاکہ قومی سطح پر محفوظ خون کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔ جب ڈی ڈبلیو کی نمائندہ نے اس مرکز کا دورہ کیا تو دروازوں پر تالے لگے تھے۔ صحن میں ایک ایمبولینس سمیت چند گاڑیاں موجود تھیں، لیکن وہاں موجود واحد چوکیدار کو مرکز کے مستقبل کی کوئی خبر نہ تھی۔

’مسلم لیگ (ن) کا منصوبہ‘ اپنی ہی حکومت میں ناکام

اس بلڈ سینٹر کا سنگ بنیاد سن 2017 میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور اس وقت کے وزیر مملکت برائے کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے رکھا تھا۔ حکومتی خبر رساں ادارے اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق جرمن ترقیاتی بینک کی 175 ملین روپے (تقریباً 1.6 ملین یورو) کی مالی امداد سے یہ مرکز جدید آلات سے لیس کیا گیا تھا۔

(جاری ہے)

سابق ملازمین کا کہنا ہے کہ یہ مرکز تین سال تک فعال رہا لیکن مستقل سرپرستی اور فنڈز کی کمی کے باعث اسے بند کر دیا گیا۔

مرکز فعال کیوں نہ رہ سکا؟

سابق ملازم محمد اسامہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس مرکز کے قیام سے بندش تک کبھی مستقل سربراہ تعینات نہیں کیا گیا۔ یہ وزارت صحت کے تحت چلتا رہا، جہاں تین سال میں مختلف جوائنٹ سیکرٹریز اور ایڈیشنل سیکرٹریز کو اضافی چارج سونپا گیا۔

ان افسران نے مرکز کا شاذ و نادر دورہ کیا اور اکثر عملے کو وزارت میں طلب کر لیا جاتا تھا۔

اسامہ کے مطابق ابتدائی طور پر یہ ذمہ داری آئی ایچ آر سی کو دی گئی تھی لیکن ادارے نے ناکافی صلاحیت اور مطابقت کی بنیاد پر چارج لینے سے انکار کر دیا۔

کروڑوں روپے کا طبی سامان ضائع

ایک سابق خاتون ملازمہ نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ 20 کنال اراضی پر قائم یہ جدید مرکز اربوں روپے کی گاڑیوں، مشینری، پلازما، کٹس اور فرنیچر سے لیس تھا۔

تاہم، عدم استعمال کی وجہ سے یہ سامان یا تو ضائع ہو چکا ہے یا تباہی کے دہانے پر ہے۔

ملازمین کی برطرفی کا تنازع

ایک سابق سینئر خاتون ملازمہ کے مطابق مرکز کے 50 سے زائد ملازمین نے گزشتہ چھ ماہ سے برطرفی اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف وزارت صحت کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔

مقدمے کے سربراہ محمد اسامہ کا کہنا ہے کہ عدالت نے وزارت صحت کو عید سے قبل تنخواہیں ادا کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

حکومتی موقف جاننے کے لیے وفاقی وزیر صحت، وزارت کے ترجمان اور مرکز کے بانی رہنما سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی، لیکن کوئی جواب موصول نہ ہوا۔

تاہم سابق چیئرمین اسلام آباد بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی پروفیسر حسن عباس ظہیر کا کہنا ہے کہ اس مرکز نے کبھی باقاعدہ کام شروع ہی نہیں کیا تھا۔

پاکستان میں محفوظ خون کی قلت

پاکستان بلڈ ڈونیشن سوسائٹی کے صدر ڈاکٹر فضل ربی کے مطابق پاکستان کو سالانہ 48 لاکھ خون کے تھیلوں کی ضرورت ہے، لیکن 16 لاکھ مریضوں کو محفوظ خون میسر نہیں ہوتا، یعنی ہر تیسرا مریض محروم رہتا ہے۔

تھیلیسیمیا کا علاج اب جین تھیراپی سے ممکن

انہوں نے بتایا کہ محفوظ خون حاصل کرنے والوں کا 50 فیصد خون غریب یا منشیات کے عادی افراد سے خریدا جاتا ہے، 40 فیصد رشتہ دار فراہم کرتے ہیں اور صرف 10 فیصد سے کم رضاکارانہ عطیات سے آتا ہے، جو سب سے محفوظ ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں رضاکارانہ خون کے عطیات کی شرح 10 فیصد سے بھی کم ہے، جبکہ دنیا کے 57 ممالک میں محفوظ خون کی منتقلی مکمل طور پر رضاکارانہ عطیات پر مبنی ہے۔

مریضوں کے لیے خون کی اہمیت

راویئنز بلڈ ڈونر سوسائٹی کے بانی عرفان خاور ڈار کے مطابق صاف اور محفوظ خون زندگی اور موت کا معاملہ ہے کیونکہ آلودہ خون مریض کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر فضل ربی کا کہنا ہے کہ زچگی، ٹریفک حادثات، کارڈیک سرجریز اور تھیلیسیمیا جیسے حالات میں خون کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ تھیلیسیمیا کے بچوں کو باقاعدہ خون کی ضرورت پڑتی ہے، جو جسمانی، ذہنی اور مالی طور پر انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے، خاص طور پر نایاب بلڈ گروپس کے لیے۔

عرفان خاور ڈار نے بتایا کہ نجی بلڈ سینٹرز میں شفافیت کا فقدان ہے۔ یہ ادارے عطیہ دہندگان سے خون لیتے ہیں لیکن بعد میں اسے منافع کے لیے فروخت کرتے ہیں، ''ان کے پاس نہ کوئی مقررہ نرخوں کا نظام ہے اور نہ ہی مؤثر ضابطہ کار۔ کئی جگہوں پر یہ عمل غیر قانونی طور پر جاری ہے، جو عطیہ دہندگان کے اعتماد اور مریضوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتا ہے۔‘‘

ادارت: امتیاز احمد

Live آپریشن بنیان مرصوص سے متعلق تازہ ترین معلومات