اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 جون 2025ء) بھارت میں انسانی حقوق کے کارکنوں اور وکلاء نے حکومت کی جانب سے سینکڑوں افراد کی بنگلہ دیش جبری ملک بدریوں کو غیر قانونی اور نسلی امتیاز پر مبنی قرار دیا ہے۔ بھارتی اور بنگلہ دیشی حکام نے تصدیق کی ہے کہ ان افراد کو بغیر کسی مقدمے کے بنگلہ دیش واپس بھیج دیا گیا ہے۔
نئی دہلی کا کہنا ہے کہ یہ افراد ''غیر دستاویزی مہاجرین‘‘ ہیں۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت عرصہ دراز سے امیگریشن، خاص طور پر مسلمان اکثریتی ہمسایہ ملک بنگلہ دیش سے آنے والوں کے بارے میں سخت موقف اختیار کیے ہوئے ہے۔ اعلیٰ حکام ان مہاجرین کو ''دیمک‘‘ اور''درانداز‘‘جیسے الفاظ سے بھی پکار چکے ہیں۔(جاری ہے)
یہ حکومتی پالیسی بھارت کے تقریباً 20 کروڑ مسلمانوں، خاص طور پر بنگالی بولنے والوں کے لیے خوف کی علامت بن چکی ہے، جو مشرقی بھارت اور بنگلہ دیش دونوں میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
بھارتی سماجی کارکن ہرش مندر کا کہنا ہے، ''مشرقی بھارت کے مسلمان خوفزدہ ہیں۔ آپ نے کروڑوں لوگوں کوان کی بقا کے خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔‘‘بنگلہ دیش اور بھارت کی طویل مشترکہ سرحد ہے تاہم دونوں ممالک کے مابین تعلقات 2024 میں اس وقت کشیدہ ہو گئے تھے، جب ڈھاکہ میں ایک عوامی بغاوت نے شیخ حسینہ واجد کی بھارت نواز حکومت کو معزول کر دیا تھا۔
بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں 22 اپریل کو ہونے والے حملے میں 26 افراد (زیادہ تر ہندو یاتریوں کی) ہلاکت کے بعد سکیورٹی کریک ڈاؤن تیز کر دیا ہے۔ نئی دہلی نے اس حملے کا الزام پاکستان پر لگایا تھا، جسے اسلام آباد نے مسترد کر دیا۔ اس کشیدگی کے نتیجے میں چار روزہ جھڑپیں بھی ہوئیں، جن میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
اس کے بعد بھارتی حکام نے پورے ملک میں بڑے پیمانے پر سکیورٹی آپریشن شروع کیا، جس کے دوران ہزاروں افراد کو حراست میں لیا گیا اور ان میں سے بہت سوں کو زبردستی سرحد پار بنگلہ دیش دھکیل دیا گیا۔
'کھڑے ہوئے تو گولی ماری دیں گے‘
بھارتی ریاست آسام سے تعلق رکھنے والی رحیمہ بیگم نے بتایا کہ مئی کے آخر میں پولیس نے انہیں حراست میں لے کر بنگلہ دیشی سرحد پر چھوڑ دیا۔
انہوں نے کہا، ''میں نے ساری زندگی یہاں گزاری ہے۔ میرے والدین، دادا، سب یہیں کے ہیں۔ میں نہیں جانتی کہ انہوں (پولیس) نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟‘‘رحیمہ کے مطابق پولیس نے انہیں اور پانچ دیگر مسلمانوں کو رات کی تاریکی میں دلدلی علاقے میں دھکیلتے ہوئے کہا، ''چپ چاپ رینگتے ہوئے اس گاؤں تک جاؤ، اگر کھڑے ہو کر چلے تو گولی مار دیں گے۔‘‘اُدھر بنگلہ دیشی دیہاتیوں نے انہیں پکڑ کر بارڈر پولیس کے حوالے کر دیا، جنہوں نے مار پیٹ کر رحیمہ اور ان کے ساتھ دوسرے افراد کو واپس بھارت کی طرف دھکیل دیا، ''جیسے ہی ہم واپس جانے لگے، سرحد کی دوسری طرف سے فائرنگ شروع ہو گئی۔ ہم سمجھے کہ اب ہماری زندگی ختم۔‘‘
رحیمہ بیگم بچ گئیں اور ایک ہفتے بعد انہیں آسام میں ان کے گھر واپس چھوڑ دیا گیا، ساتھ ہی خاموش رہنے کی وارننگ بھی دی گئی۔
قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا ردعمل
نئی دہلی سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل سنجے ہیگڑے نے کہا، ''آپ کسی شخص کو اس وقت تک ملک بدر نہیں کر سکتے جب تک دوسرا ملک اسے قبول کرنے پر راضی نہ ہو۔‘‘
انہوں نے کہا کہ بھارتی قانون بغیر عدالتی کارروائی کے ملک بدری کی اجازت نہیں دیتا۔ بنگلہ دیش کا کہنا ہے کہ بھارت مئی سے اب تک 1600 سے زائد افراد کو زبردستی اس کی سرحد پر دھکیل چکا ہے، جبکہ بھارتی میڈیا اس تعداد کو 2500 تک بتا رہا ہے۔
بنگلہ دیشی بارڈر گارڈز نے ان میں سے 100 افراد کو واپس بھارت بھیجا ہے کیونکہ وہ بھارتی شہری تھے۔بھارت پر اس سے پہلے بھی روہنگیا پناہ گزینوں کو زبردستی میانمار واپس بھیجنے کا الزام لگ چکا ہے۔ زیادہ تر متاثرہ افراد کم اجرتوں پر کام کرنے والے مزدور ہیں اور زیادہ تر ان ریاستوں سے تعلق رکھتے ہیں، جہاں مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔
آسام کے وزیرِ اعلیٰ نے کہا ہے کہ 300 سے زائد افراد کو بنگلہ دیش بھیجا گیا ہے۔ جبکہ ریاست گجرات کے پولیس سربراہ کے مطابق وہاں 6500 سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ان میں سے کئی بنگالی بولنے والے بھارتی مسلمان تھے، جنہیں بعد میں چھوڑ دیا گیا۔
سماجی کارکن ہرش مندر نے کہا، ''جن لوگوں کی پہچان مسلمان ہو اور وہ بنگالی بولنے والے ہوں، ان کو نظریاتی نفرت کی مہم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔‘‘
ادارت: امتیاز احمد