u-پنجگور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 29 جون2025ء) ایس پی او(SPO) کے زیر اہتمام انٹرنیشنل ایم ایس ایم ایز(MSMEs) ڈے کے موقع پر تقریبی پروگرام کا انعقاد پنجگور کے ڈسٹرکٹ کونسل ہال میں "انٹرنیشنل یومِ ایس ایم ایز" (International MSMEs Day)کے حوالے سے ایک پٴْروقار پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔بین الاقوامی ایس ایم ای ڈے، جسے مائیکرو، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کا دن بھی کہا جاتا ہے، ہر سال 27 جون کو منایا جاتا ہے تاکہ معیشت کی ترقی اور خوشحالی میں ان کاروباروں کے اہم کردار کو تسلیم کیا جا سکے۔
اس کا مقصد ایس ایم ایز کی اہمیت کے بارے میں شعور اجاگر کرنا اور ان کی ترقی اور پائیداری کو فروغ دینا ہے۔تقریب کا باقاعدہ ا?غاز تلاوت کلام پاک سے ہںوا۔اس عالمی دن کے موقعے پر ایس پی او کیچ کے ریجنل مینیجر 'مہراب بلوچ' ایس پی او پنجگور کے پروجیکٹ افیسر 'مجاھد علی'نے پروجیکٹ کاتعارف کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایس پی او GRASP پروجیکٹ کے تحت ڈسٹرکٹ کیچ/ پنجگور میں (MSMEs) کے ساتھ کام کر رہا ہے GRASP ترقیاتی منصوبہ ہے جو دیہی علاقوں کی اقتصادی بہتری، پائیدار ترقی اور غربت کے خاتمے کے لیے شروع کیا گیا ہے۔
(جاری ہے)
یہ پروجیکٹ یورپی یونین کے تعاون سے غربت مکاو? فنڈ(PPAF)، بین الاقوامی تجارتی مرکز(ITC)، (SMEDA)، اور (FAO)، کے اشتراک سے چلایا جا رہا ہے۔پروگرام کے مہمانِ خصوصی نیشنل بینک آف پاکستان کے منیجر عبدالوحید بلوچ اور ایس پی او کیچ کے ریجنل منیجر 'مہراب بلوچ' تھے۔مہراب بلوچ (ریجنل منیجر، ایس پی او کیچ) کاروباری حلقوں کے درمیان روابط کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تربیت اور شعور اجاگر کیے بغیر ایس ایم ایز کو کامیاب نہیں بنایا جا سکتا، گورنمنٹ کو چائیے کہ وہ ایسی پالیسیز بنائے جو (MSMEs) کے کاروبار کیلئے ا?سانیاں پیدا کر سکیں۔
عبدالوحید بلوچ (منیجر، نیشنل بینک پنجگور) نے SME سیکٹر کے لیے نیشنل بینک کی اسکیموں، قرضہ جات، تربیتی مواقع اور تکنیکی معاونت کی تفصیلات بیان کیں۔ حوا سخی ( اونر، حوا پولٹری اینڈ گوٹ ہاو?س ایس ایم سی پرائیویٹ لمیٹڈ) گرانٹی گراسپ نے اپنے تجربات شیئر کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح انہوں نے خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے کے لیے پولٹری اور بکری فارمنگ کا آغاز کیا اور خواتین کے لیے آسان قرضے اور تربیتی پروگراموں کی ضرورت پر زور دیا جائے۔
دیگر مقررین میں حاجی خالد محمود (صدر، زمیندار ایکشن کمیٹی پنجگور)، ظہور زیبی(ممبر، پنجگور سول سوسائٹی), حاجی صغیر احمد (اونر، مکران ٹریڑرز اینڈ کولڈ اسٹوریج), , مصدق عزیز (اونر، شمس الرحمان گوٹ فارم ایس ایم سی پرائیویٹ لمیٹڈ)، عارف مول جان(مینجر، سوگات پروم پروڈکٹ)، شاکر علی(اونر، رٴْڑن ٹریڑرز) و دیگر شامل تھے۔ پروگرام کے دوران بلوچ حمزہ برادرز ڈیٹس کمپنی، کشاورزی ٹریڑرز اینڈ کمپنی، حوا سخی پولٹری اینڈ گوٹ ہاو?س اور بلوچ فارم ہاو?س نے اپنے تیار کردہ پروڈکٹس کے اسٹال لگائے، جن میں دیسی انڈے، زیتون کے تیار کردہ پروڈکٹس تیل، اچار وغیرہ ،کیچ کے تازہ کھجور 'شکری' اور مختلف اقسام کے پیکیجنگ کے ساتھ کجھوریں نمایاں تھی جنہیں شرکائ نے بے حد سراہا اور خریداری میں دلچسپی دکھائی۔
شرکائ نے اس بات پر اتفاق کیا۔کیچ پنجگور جیسے پسماندہ علاقوں میں SME سیکٹر ہی روزگار، معاشی بہتری اور خود کفالت کا واحد ذریعہ بن سکتا ہے۔ تقریب کے اختتام میں ایس پی او (SPO)نے پروگرام کے تمام شرکائ کا شکریہ ادا کیا اور پروگرام کا اختتام دعائیہ کلمات کے ساتھ کیا۔ 6/29, 3:00 PM] Bahram Balouch. m: بچوں کے حقوق پر کوئٹہ میں نیشنل کمیشن برائے اطفال کا مشاورتی اجلاس ط تلخ حقائق، اجتماعی مطالبات اور ادارہ جاتی کمزوریاںنیشنل کمیشن برائے اطفال (NCRC) کے زیراہتمام کوئٹہ انڈیپینڈنٹ لونگ سینٹر میں ایک اہم مشاورتی اجلاس منعقد ہوا، جس کا مقصد بلوچستان میں بچوں کے مسائل، قانون سازی میں سستی، اور ادارہ جاتی کردار پر کھل کر گفتگو کرنا تھا۔
اجلاس کی میزبانی ریاض بلوچ (ایگزیکٹو ڈائریکٹر، TSO) نے کی، جبکہ معاونت چائلڈ رائٹس مومنٹ (CRM) بلوچستان اور کوئٹہ آن لائن نے فراہم کی۔اجلاس میں نیشنل کمیشن برائے اطفال کے مرکزی نمائندہ خالد نعیم اور بلوچستان سے بچوں کے نیشنل ممبر ایڈوکیٹ عبدالحئی بنگلزئی نے شرکت کی۔ دیگر شرکائ میں عادل جہانگیر (ایگزیکٹو ڈائریکٹر، AID بلوچستان / CRM بلوچستان سیکرٹریٹ)، میر بہرام بلوچ (سینئر صحافی و رکن CRM بلوچستان)، سلام خان (ایگزیکٹو ڈائریکٹر، سالار فاؤنڈیشن)، سعید کھوڑو (سینئر منیجر، دانش آرگنائزیشن) اور مختلف سماجی، میڈیا اور سول سوسائٹی تنظیموں کے نمائندے شامل تھے۔
اجلاس میں اس امر پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا کہ بلوچستان اسمبلی کے موجودہ اراکین بچوں کے مسائل اور قانون سازی کے حوالے سے غیر سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ کم عمری میں شادی کی ممانعت کا بل گزشتہ پندرہ برس سے اسمبلی میں زیر التوائ ہے، لیکن اس پر کوئی مؤثر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اس کے برعکس اراکین اپنے ذاتی مفاد کے قوانین باآسانی منظور کروا لیتے ہیں۔
بلوچستان میں نو عمر قیدیوں کے لیے اصلاحی مراکز کی عدم موجودگی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ بچوں کو بالغ قیدیوں کے ساتھ رکھا جا رہا ہے، جو نہ صرف غیر انسانی ہے بلکہ قانوناً بھی ناقابل قبول ہے۔ جوان آفینڈر قوانین کو ایک دہائی سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر اب تک ان پر عملی عملدرآمد نہیں ہو سکا۔تعلیم کے میدان میں بھی صورتحال افسوسناک ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 29 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں۔ ہر سال تعلیمی بجٹ میں اربوں روپے مختص کیے جاتے ہیں، مگر یہ رقم بنیادی تعلیمی بہتری کے بجائے انفراسٹرکچر، سڑکوں اور عمارتوں پر خرچ کی جاتی ہے، جبکہ بچوں کی سیکھنے کی ضروریات اور تحفظ نظر انداز ہو چکے ہیں۔اجلاس میں اس حقیقت کی بھی نشاندہی کی گئی کہ بلوچستان میں نہ صرف بچے بلکہ دیگر سماجی و معاشرتی طور پر کمزور طبقات جیسے خواتین، افراد باہم معزور، خواجہ سرائ اور اقلیتیں بھی حکومتی پالیسیوں اور بیوروکریسی کی بے حسی کا شکار ہیں۔
اس عدم توجہی کے باعث بلوچستان ہر شعبے میں پسماندگی کا شکار ہو چکا ہے۔شرکاء نے اس امر پر بھی روشنی ڈالی کہ بلوچستان میں موجود کئی حکومتی کمیشنز اور ادارے بھی بے اختیار اور غیر مؤثر ہو چکے ہیں۔ ان اداروں میں سفارش، اقرباپروری اور سیاسی مداخلت عام ہے، جس کی وجہ سے نہ یہ ادارے خودمختار کردار ادا کر پا رہے ہیں، نہ ہی انہیں حکومت کی کوئی مؤثر سرپرستی حاصل ہے۔
اس ادارہ جاتی کمزوری کا براہ راست نقصان بچوں اور کمزور طبقات کو ہو رہا ہے۔اجلاس کے اختتام پر تمام شرکائ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ ہم بچوں اور معاشرے کے دیگر محروم طبقات کے مسائل کو ہر سطح پر اجاگر کریں گے۔ ہم قانون سازی، بجٹ ترجیحات اور پالیسی سازی میں تبدیلی کے لیے جدوجہد کرتے رہیں گے اور ذمہ داروں کو ان کی ذمہ داری کا احساس دلاتے رہیں گے۔چائلڈ رائٹس مومنٹ بلوچستان اور کوئٹہ آن لائن تمام شرکائ کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے اجتماعی آواز اور عملی کوششیں جاری رکھنے کا عزم دہراتے ہیں۔