خیبر پختونخوا میں سال 2024کے دوران قانون کی عملداری کمزور رہی، صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ

پیر 30 جون 2025 19:30

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 30 جون2025ء) خیبر پختونخوا میں سال 2024کے دوران قانون کی عملداری کمزور رہی جبکہ صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق ایچ آر سی پی خیبر پختونخوا کے وائس چیئر پرسن اکبر خان نے پشاور پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا میں 2024کے دوران شدت پسندی کے باعث عام شہریوں ، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی فورسز کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا جو اس خطے کی بگڑتی ہوئی سکیورٹی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے ۔ضلع کرم میں فرقہ وارانہ تشدد اور قبائلی دشمنیوں کے نتیجے میں تقریباً 250ہلاکتیں ہوئیں جبکہ سڑکوں اور اشیائے خورد و نوش کی رسد کی بندش نے انسانی بحران کو جنم دیا ۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ جمہوری حکمرانی شہری آزادیوں اور امن و امان کی بگڑتی صورتحال نے اس خطے کے سیاسی اور سماجی استحکام پر سنگین سوالات کھڑے کیے ہیں تاہم 2024 کے انتخابات میں خواتین کی ابھرتی ہوئی شرکت کو سیاسی شمولیت کی جانب ایک حوصلہ افزا قدم قرار دیا گیا ہے۔صوبائی پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق توہین مذہب کے الزام میں 77 افراد کے خلاف مقدمات درج کیے گئے اور 49 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں ایک خاتون بھی شامل ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ قانون سازی کی رفتار سست رہی اور صرف 30 بل پیش کیے گئے جن میں سے 21 منظور ہوئے اور عدلیہ پر دباؤ برقرار رہا ،پشاور ہائی کورٹ میں 23 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں جبکہ مجموعی طور پر 38 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں جن میں متعدد توہین عدالت سے متعلق ہیں اور ان میں سیاسی و پولیس شخصیات فریق ہیں۔پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی سالانہ رپورٹ میں سیلفی بنیادوں پر تشدد کے مستقل رجحان کو بھی اجاگر کیا گیا ہے جس میں گھریلو تشدد ، جنسی حملوں اور غیرت کے نام پر قتل کے سینکڑوں واقعات شامل ہیں، بچوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا جن میں درجنوں نابالغ بچوں کو بھی قتل کیا گیا ہے ،بدسلوکی یا جنسی استحصال شامل ہیں جو بچوں کے تحفظ کے نظام میں موجودہ سنگین خامیوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔

رپورٹ میں محنت کشوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ محنت کشوں کے حقوق کی خلاف ورزیاں بلا معطل جاری ہیں ، کم از کم 26 کان کن خطرناک حالات اور شدت پسند حملوں کے باعث جاں بحق ہوئے ۔شدت پسندوں نے اغوا کی متعدد وارداتوں میں 30 سے زائد مزدوروں کو مختلف واقعات میں اغوا کیا جبکہ کم از کم اجرت بڑھانے کے صوبائی وعدوں کے باوجود اجرت سے متعلق مسائل برقرار رہے۔

ایچ ار سی پی کی سالانہ رپورٹ میں ماحولیاتی مسائل کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جس کے مطابق شدید بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جبکہ پشاور دنیا کا آلودہ ترین شہر رہا اور اس کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں اب بھی شامل ہے۔پریس کانفرنس سے پروفیسر ڈاکٹر سرفراز کوآرڈینیٹر ایچ آر سی پی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معاشرے کے مظلوم طبقے خواجہ سرئواں کو کئی مقامات پر بے دردی سے قتل کیا گیا اور کئی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے عدالتی احکامات کے باوجود لوکل گورنمنٹ کے ناظمین اور اپنے ہی کونسلروں کو مسلسل فنڈ سے محروم رکھا اور کئی مرتبہ ناظمین اور کونسلروں نے خیبر پختونخوا اسمبلی کے سامنے اپنے حق کے لیے مظاہرے کیے لیکن ان کو ان کے فنڈ سے مسلسل محروم رکھا جا رہا ہے۔